سری لنکا میں مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی پامالی

بدھ 17 مارچ 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

گذشتہ دنوں سری لنکن حکومت اس وجہ سے بہت خبروں میں رہی کہ وہ کرونا سے مرجانے والے مسلمانوں کو زبردستی جلا رہے تھے، خدا خدا کرکے کسی طرح وہ معاملہ سلجھا تو اب سری لنکن حکومت نے مسلمانوں پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا بل تیار کرلیا ہے، جس کے تحت برقع پہننے پر پابندی ہوگی، پردہ کرنا اور نقاب یا حجاب پر بھی پابندی ہوگی، ساتھ ساتھ ایک ہزار کے قریب مدرسوں کو بھی فوری بند کرنے کے احکامات جاری کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔


اس ضمن میں سری لنکا کے وزیر برائے قومی سلامتی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے مسلمان عورتوں کے عوامی مقامات پر پردہ کرنے اور مدارس کی بندش کے ایک مسودہ پر دستخط کرکے منظوری کیلئے کیبنٹ کو بھیج دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قدم انہوں نے قومی سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے اٹھایا ہے۔

(جاری ہے)


انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے ہاں اب سے پہلے مسلمان عورتیں اور لڑکیاں برقع نہیں پہنا کرتی تھیں، جو اب بہت بڑھ گیا ہے اور مذہنی شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کو ظاہر کرتا ہے۔

جس کے مضمرات ہم حال ہی میں بھگت چکے ہیں ، اور ہم اس پر ضرور پابندی لگا کر رہیں گے۔
کئی دھائیوں سے ملک کے شمالی حصوں میں پھیلی شورشوں کو کچلنے کیلئے مشہور گوٹابھایا راجہ پاکسا جو اس وقت سیکٹری برائے قومی سلامتی تھے اپنے انتہا پسندی کے خلاف سخت اقدامات کی وجہ سے سری لنکا کے صدر چن لئے گئے ۔ یہ حضرت اپنے انتہائی منافرت بھرے اور تعصب زدہ اقدامات کی وجہ سے ایسے جرائم میں ملوث رہے ہیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔

یہ ہر جائز و ناجائز زبردستی اقلیتوں پر تھوپ دینے کے ماہر بھی سمجھے جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ قریب ایک ہزار مدارس کو بھی بند کرنے جا رہے ہیں، جو حکومتی تعلیمی پالیسی کے خلاف ہیں، ہم اپنے ملک میں ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ جس کا دل چاہے اسکول و مدرسہ کھول کر بیٹھ جائے اور اپنی برضی کا نصاب پڑھانا شروع کردے۔ جو بعد میں مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دینے اور اور ملک میں نئی شورشوں کو جنم دینے کا سبب بنے ۔


سری لنکن حکومت کے گذشتہ ایک سال کے مسلم دشمنی اور تعصب پر مبنی اقدامات پر نظر ڈالی جائے تو با آسانی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سری لنکن حکومت قومی سلامتی کی آڑ میں مسلمان دشمن اقدامات کر رہی ہے۔
 بیرونی دنیا کا دباؤ پڑتا ہے تو کچھ دن کیلئے رک جاتے ہیں اور پھر وہیں سے دوبارہ شروع ہوجاتے ہیں۔
برقع و مدارس پر پابندی بھی سری لنکن حکومت کی مسلم دشمنی کو عیاں کرتی ہے۔

محترم وزیر فرماتے ہیں کہ برقع یا نقاب ہماری قومی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ ہیں، کیونکہ برقع اور نقاب مذہبی شدت پسندی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں تک کے سری لنکن وزیر انصاف جناب علی صابری فرماتے ہیں کہ یہ حکومت کا حق ہے کہ وہ اسطرح کی پابندی لگائے کیونکہ اس سے کسی کے بھی بنیادی انسانی حقوق پامال نہیں ہورہے ہیں۔
سری لنکا پر جن دو بھائیوں کی حکومت ہے صدر گوٹابھایا راجہ پاکسا اور ان کے بھائی وزیر اعظم مہندا راجہ پاکسا، وہ دونوں بھائی انتہائی متعصب اور اقلیت دشمن اقدامات کیلئے مشہور ہیں۔

کمال تضاد یہ ہے کہ ایک جانب مسلمانوں پر پابندیاں لگا رہے ہیں وہیں دوسری جانب بدھ دہشت گردوں کو مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کیلئے اکساتے بھی ہیں اور مدد بھی دیتے رہتے ہیں جس سے مسلم اقلیتوں کی زندگی مشکل بنی ہوئی ہے۔ ایک سری لنکن انسانی حقوق کی علمبردار خاتون نے کہا کہ برقع پر پابندی سری لنکن حکومت کی تنگ نظری تعصب زدگی اور انتہا پسندی کی علامت ہے، جو مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔

دراصل صدر اور وزیر اعظم دونوں کے انتخابی منشور کا اہم جز اقلیت دشمنی ایجنڈا تھا جس کی وجہ سے یہ جیت کر ان عہدوں تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی انتخابات کی جیت میں ان کے مسلم دشمن بیانات نے بڑا کردار ادا کیا ہے اور وہ اب بھی اسی فارمولے پر عمل کر رہے ہیں ، آج بھی وہ مسلم دشمن بیانات اور اقدامات سے باز نہیں آتے ہیں حالانکہ وہ ملک کے صدر اور وزیر اعظم ہیں مگر تنگ نظر ی ان کا شعار بن چکا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بالغ نظری سے دیکھیں تو پردہ سے قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہے ہی نہیں، یہ محض قومی سلامتی کی آڑ میں مسلم دشمنی کی جا رہی ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں پاکستان اور دیگر ممالک کو چاہئے کہ مل کر دنیا بھر کے لوگوں کو سرلنکا میں انسانی حقوق کی پامالی سے آگاہ کریں اور اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جانے کی کوششیں کریں اور سری لنکا میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کو دنیا بھر کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے، یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے جس میں تاخیر سری لنکا میں مسلمانوں کی زندگیوں کو مذید مشکل بنا نے کا سبب بن سکتی ہے۔

ہمیں چاہئے کہ اس معاملے کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومتی سطح پر، سفارتی سطح پر بلکہ ہر فورم ہر پلیٹ فارم پر اجاگر کریں تاکہ دنیا سری لنکن حکومت کے اصل چہرے سے واقف ہو سکے اور سری لنکا میں مقیم مسلمان چین کی زندگی گزار سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :