ملک میں سگ گذیدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات

جمعرات 18 مارچ 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

کتے کو انسان کا بہترین دوست مانا جاتا ہے، یہ وفاداری اور تابعداری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، انسان نے ہزاروں سال پہلے کتّے کو سدھایا اور اسے گھروں میں گھر کے فرد کی طرح رکھنے لگا جو آج بھی جاری ہے۔ دنیا بھر میں کتّوں کی قریب 350اقسام موجود ہیں، جو قد و قامت میں ایک چھوٹی بلّی سے لیکر بڑے بکرے کے برابر تک موجود ہیں، ویسے تو کتّے ہر رنگ میں مل جاتے ہیں مگر بعض اقسام مخصوص رنگوں میں پائی جاتی ہیں، اسی طرح مختلف نسل کے کتّوں کے رویئے بھی محتلف ہوتے ہیں جیسے روٹ ویلر ڈابرمیں یا امریکن بل ڈاگ نہایت غصہ ور جبکہ لبیر ڈر ، شیفرڈ یا واٹر کولیز نہایت دوستانہ رویوں والے کتّے ہوتے ہیں۔

مگر یہی کتّا اگر تربیت یافتہ نہ ہو گلیوں میں آزادانہ پھرتا ہو تو عام انسانوں اور جانوروں کیلئے ایک جان لیوا خطرہ بن سکتا ہے۔

(جاری ہے)

سگ گذیدگی نہایت تکلیف دہ اور جان لیوا ہو سکتی ہے، اگر کتّا Rabiesسے متاثر ہے تو یہ جس کسی کو بھی کاٹ لے گا وہ مر بھی سکتا ہے۔
دنیا بھر میں آوارہ کتّوں کے کاٹنے سے ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ آوارہ کتّے عموماً جھنڈ بنا کر رہتے ہیں اور جب کسی انسان یا جانور پر حملہ کرتے ہیں تو عموماً اسے جان سے مار دیتے ہیں۔

ابھی کچھ ہی دنوں پہلے سعودی عرب میں پانچ آوارہ کتّوں نے ایک ڈھائی سال کی بچّی کی اس کے گھر والوں کے سامنے جان لے لی، سعودی حکومت فوراً حرکت میں آگئی اور ولی عہد کی جانب احکامات جاری کئے گئے کہ آوارہ کتوں کی افزائش پر فوراً روک لگائی جائے۔ لہذا وہاں کے محکمہ صحت نے کتوں کی نس بندی یا Sterlizeکرنا شروع کردیا ہے۔ جبکہ ہمارے اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہوشربا اور چشم کشاء ہیں مگر عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔

سندھ میں بالخصوص کراچی میں اسپتالوں میں رجسٹر کئے گئے کیسز کے مطابق کتّے کے کاٹنے کے اعداد و شمار کچھ اس طرح ہیں۔
صوبہ سندہ کے ہسپتالوں میں ایک سال سے بھی کم وقت میں تقریباً 150,000 کتے کے کاٹنے کے واقعات درج ہوئے ہیں۔ سندہ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2020سے ستمبر 2020تک کراچی میں سب سے زیادہ یعنی 17,800 کتّے کے کاٹنے کے واقعات رونما ہوئے، اس کے علاوہ نوشہرہ فیروز میں 13,000 ، خیرپور میں 12,500، کشمور میں 11,400، دادو میں 11,300، شہداد کوٹ میں 9,100، سانگھڑ میں 8,000 اور عمر کوٹ میں 7,500 واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں جو نہایت افسوسناک اور تکلیف دہ ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں سگ گذیدگی کے باوجود کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔


امر استعجاب یہ ہے کہ عموماً ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کے علاج کا ٹیکہ تک دستیاب نہیں ہوتا، لوگ پاگل کتوں کے رحم و کرم پر ہیں اور اپنی جانیں گنوا رہے ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کتّے کے کاٹنے کے واقعات ہوتے ہیں وہاں کی انتظامیہ فوراً کچھ نہ کچھ اقدامات کرتی ہے، آوارہ نر کتّوں کی نس بندی یا ان کو Sterlizیا dog neuteringکر دیتی ہے، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ اتنی سنگین صورتحال کے باوجود ہمارے احباب با اختیار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اور انتظامیہ کے نیرو چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔

کتے جھنڈ کی شکل میں گھومتے پھرتے ہیں اور جہاں کسی کمزور بوڑھے یا بچے کو اکیلا پاتے ہیں بھنبھوڑ کر رکھ دیتے ہیں، ابھی حال ہی میں ایک پانچ سال کی بچی کو آوارہ کتوں نے مار ڈالا ، ان کتوں کی وارداتیں شہر کے گنجان آباد علاقوں یا کچی بستیوں میں زیادہ ہیں، جیسے اورنگی ٹاؤن، ابراہیم حیدری، کورنگی، سرجانی، بلدیہ، محمودآباد اور لیاقت آباد وغیرہ ۔

ان علاقوں کے بڑے بوڑھے محفوظ ہیں نہ ہی بچے یہ آوارہ کتے جب جہاں موقع لگے انہیں اپنا شکار بنا لیتے ہیں اور مظلوم شہری اپنی جان سے جاتے ہیں۔
ہماری التماس ارباب اختیار سے یہ ہے کہ اس ضمن میں فوری اقدامات کئے جانے چاہئیں، اسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی دوا Rabbies Vaccine کو وافر مقدار میں مہیا کیا جانا چاہئے ، کتا مار مہم چلائیں، کتوں کو Sterlizeیا dog neutering کریں ، غرض یہ محکموں کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کی جان کی حفاظت کریں اور ان کو اس جان لیوا عذاب سے فوری نجات دلانے کے عملی اقدامات کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :