پیشہ ور بھکاری

بدھ 2 دسمبر 2020

Zeeshan Yousafzai

ذیشان یوسفزئی

کسی انسان سے کوئی بھی چیز مسئلہ پیسے وغیرہ انسان تب ہی مانگتا ہے جب وہ اس کے حاصل کرنے سے لاچار ہو اور وہ اس کا انتہائی حد تک ضرورت مند ہوں۔ جب انسان کے پاس کوئی بھی چارہ نہ ہو تو پھر وہ بھیک مانگتا ہے اور جو لوگ یہ کام کرتے ہیں ان کو ایک حقیر لفظ سے پکارا جاتا ہے اور وہ لفظ ہمارے معاشرے میں طنز یا کسی کو حقارت کی نظروں سے دیکھ کر ہی پکارا جاتا ہے وہ ہے بھکاری یا گداگر ۔

اللہ ہر انسان کو اس سے بچائے اور کسی کو اتنا مجبور نہ کرے کہ وہ دوسرے انسان کے در پے جا ٹھرے، کیونکہ سوال ایک ہی زات سے کیا جاتا ہے اور وہ زات خالق کائنات ہے جو بار بار مانگنے سے خوش ہوتا ہے ۔ انسان جتنا بھی فراخ دل ہو لیکن بار بار مانگنے سے تنگ ہی ہوجاتا ہے.ایسی صورت میں کچھ لوگ ہوتے ہیں جنہوں بغیر کسی مجبوری کے سوال کرنا اپنا پیشہ بنارکھا ہے۔

(جاری ہے)

اور اسے لوگ پلےنیگ کرکے یہ کام بخوبی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں ۔ بعغں جہگوں میں تو پورا گینگ ہوتا ہے اور کمپنی کی طرح ڈیوٹیاں لگاکر گداگری کرتے ہیں ۔ کوئی اپنے کم عمر بچوں کو کوئی اپنی عورتوں کو اور کوئی کسی اور کے بچوں کو استعمال کرکے ان سے گداگری کرواتی ہوتے ہیں۔ اپکو بہت سارے لوگ ہوٹلوں، ریسٹورینٹس اور بازاروں میں  نظر آئینگے  جو طرح طرح کے بہانوں سے لوگوں کے مال لوٹتے ہیں۔

کوئی سٹوڈنٹ بن کر اپنی فیس کا رونا روتا ہے کوئی والدین تو کوئی اپنے بچوں کی بیماری کے جھوٹے بہانے بناتا ہے۔ کہئی پر اپکو لوگ ماڈرن طریقے سے لوٹتے ہیں انکا طریقہ واردات کچھ الگ ہی ہوتا ہے گاڈی میں پوری فیملی سمت بیٹھ کر پیسے بھول جاتے ہیں اور انکا فیول ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے تاہم پورے خاندان میں کسی بھی فرد کے ساتھ ایک روپیہ نہیں ہوتا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی ٹیکنالوجی کے دور میں بھی نہ انکے پاس موبائیل ہوتا ہے کہ وہ کسی  دوست کو یا کسی عزیز کو رابطہ کرکے پیسے منگواں سکے۔

کھبی کھبار آپکو اڈے پے بھی ایسے لوگ ملے گئے جن کے پاس گھر جانے کے لیے کرایہ نہیں ہوتا اور اگر آپ آفر کردے کے گاڈی والے کو کرایہ ادا کردونگا تو وہ نقدی کا ڈیمانڈ کرتے ہوتے ہیں۔ یہی وہ حضرات ہیں جن کو پیشہ ور بھکاری کہا جاتا ہے جو بغیر کسی مجبوری کے سائل بنے ہوتے ہیں۔ اگر بات اسلام کی کی جائے تو اسلام میں گداگری کا سختی سے منا فرمایا گیا ہے اور خاص طور پر ان لوگوں کے لیے سزا مقرر ہے جو پیشہ ور بنے ہوتے ہیں  اور اس کے متعلق آحادیث نبویؐ موجود ہے ۔

عالمی قوانین میں بھی کوئی ایسے شق نہیں ہے جو گداگروں کو تحفظ دیتا ہوں۔ ویسے بھی انسانی طور طریقوں کے مطابق یہ اچھی جیز نہیں ہے بلکے اس کو حقیر نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔اگر بات پاکستان کی کرے تو وطن عزیز اس مسلے سے سخت دوچار ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 20 سے 25 ملین لوگ پاکستان میں گداگر ہیں جن میں زیادہ تر کام بچوں اور عورتوں سے لیا جاتا ہے اور بعغں کیسز پاکستان میں ایسے بھی سامنے آئیے ہیں جن میں سائلوں کے بینک ایکائنٹوں سے لوکھوں روپے برآمد ہوئے ہیں جو معصوم شہریوں کو طرح طرح کے بہانوں سے لوٹ کر حاصل کرلی گئی ہوتی ہیں۔

ان پیشہ ور لوگوں کو اپنا نقصان تو ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ میں معاشرے کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کے جو لوگ مستحق ہوتے ہیں انکو حق ملتا ہی نہیں، دوسرا یہ کہ انکا لبادہ اوڑ کے لوگ کرائیم بھی کرتے ہوتے ہیں جیسے نشہ آور چیزوں کا سمگلینگ اور انکا فروخت کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ناسور کو کیسے ختم کیا جائے سب سے پہلے تو انکے کے گروپس کو ختم کیا جائے اور جو لوگ اپنے بچوں اور عورتوں کو استعمال کرتے ہیں انکو کھڑی سزا دی جائے ساتھ میں ان لوگوں کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے جو اصل مستحق ہیں اور پھر لوگوں سے خیرات و صداقات لے کے ان میں تقسیم کیا جائے اور انکو بھی گداگری سے منع کیا جائے اور اس کی سخت نگرانی کی جائے ساتھ میں شہریوں کی بھی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا مال سوچ سمجھ کر لوگوں کو دے اور پوری جانچ پڑتال کرکے دے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :