بچوں کے ساتھ بدسلوکی سے مراد اگر کوئی بندہ ایسا کام کر گزرے جس سے بچے کو چھوٹ لگےیا خدانحواستہ بچے کا موت واقعہ ہوں یا پھر بچے کو زہنی دباؤ میں مبتلا کیا جائے تو اس کو بچوں کے ساتھ بدسلوکی کہا جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے مختلف اقسام ہیں جیسے کے جسمانی بدسلوکی، جنسی بدسلوکی، احساسی بدسلوکی( ایموشینل ابیوز) وغیرہ وغیرہ۔
اگر کسی بچے کو ایسا مارا جائے یا ایسی سزا دی جائے جس سے بچے کو چھوٹ لگے تو جسمانی بدسلوکی کہا جاتا ہے، اگر کسی بچے کو گالی گلوچ یا زہنی طور پر دباؤ ڈالا جائے تو وہ احساسی بد سلوکی کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر ہم بات کرے جنسی بدسلوکی کی تو وہ آج کل اپنے عروج پر ہے ۔ ہر روز اگر خبرے دیکھیں، سوشل میڈیا دیکھیں یا پھر اخباروں کو اٹھائیں تو ایسے واقعات روزنہ کی بنیاد پر آپ کو ملے گے اور اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں جس سے انسان کا روح چونک جاتا ہے۔
(جاری ہے)
کبھی کوئی پھول جیسی بچی مدرسے سے واپسی پر راستے میں کیسی درندے کے حوس کا نشانہ بن جاتی ہےتو کھبی ننھا بچہ جس پر اللہ تعالی کا بھی حق نہیں ہوتا کسی نام نہاد روحانی والد کے درندگی کا نشانہ بن جاتا ہے اور ان کا اس زیادتی کے بعد دل کوسکون تب تک نہیں ملتا جب تک وہ اس بچے کو مار نہ ڈالے تاکہ معاشرے میں یہ انسانی شکل میں جو بھیڑے ہوتے ہیں یہ باعزت ہو کے رہے۔
اس طرح کے ہزاروں واقعات آپ نے دیکھے ہونگے اور سنے ہونگے۔ بعض تو ایسے واقعات ہوتے ہیں جو ہماری نظروں کے سامنے آتے نہیں اور زیادتی کے شکار خاندان کے لوگ اپنے عزت کو بچانے کے لیے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں جوکہ انتہائی زیادہ خوفناک اور نقصان دہ ہیں۔ اگر بات کرے پاکستان کی تو وطن عزیز میں ایک اندازے کے مطابق ہر روز 7 سے 8بچے زیادتی کا شکار ہوتے ہیں ،سال 2020کے پہلے چھ ماہ میں 1489 بچے زیادتی کے شکار ہوئے ہیں جس میں 785 لڑکیاں اور 704 لڑکے شامل ہیں۔
ان میں زیادہ تر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے ان کے ہی خاندان کے افراد ہیں۔ یہ بات صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پورے دنیا میں اس طرح کے واقعات سامنے آتے ہیں ۔ یورپ جسے معاشرے میں بھی روزمرہ کے بنیاد پر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کے لوگ کیوں ایسا کرتے ہیں اس حد تک لوگ کیوں گرجاتے ہیں جو اس طرح کے وقعات کرتے ہوتے ہیں۔ اس بات کا جواب آسان نہیں اور نہ ہی کوئی ٹھوس جواب ہے کے سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اس لعنت میں مبتلا ہوتے ہیں۔
کچھ عناصر سامنے آئے ہیں جن کا میں زکر کرتا چلوں بعض لوگوں کو اپنی جسمانی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوئی بالغ نہیں ملتا تو وہ اس راستے کو اختیار کرلیتے ہیں، بعض لوگ خود زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور پھر اس حد تک خود اعتماد ہوجاتے ہیں کے وہ ایسے واقعات میں ملوث ہونے سے نہیں ڈرتے، کچھ لوگ بعض اوقات نشے کی حالت میں بچوں کے ساتھ زیادتی کرجاتے ہیں لیکن جن لوگوں کو لت لگ جاتی ہیں وہی پھر باز نہیں آتے ۔
اس بد سلوکی کی کہی زیادہ نقصانات ہوتے ہیں جو نہ صرف شکار ہوئے بچے کو بلکہ اس کے پورے خاندان کو اس کے دوستوں کو اور پورے معاشرے کو ہوتا ہیں ۔ ہمارے ملک میں اگر کوئی بچی زیادتی کا شکار ہوجاتی ہے تو اس کا تا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے کوئی بھی اس کو شریک حیات بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اس طرح پورا خاندان تباہ ہو جاتا ہے ، اگر کوئی لڑکا شکار بن جاتا ہیں تو پھر یا تو خود کشی کرتا ہے یا وہ علاقہ چھوڑ جاتا ہیں اور پورا خاندان تباہ ہوجاتا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کے اس لعنت کو کیسے ختم کیا جائے اور اس کا روک تھام کیسے کیا جائے۔ سب سے پہلے زمہ داری والدین کی بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کھڑی نظر رکھے اور ان کے ساتھ رہے ان کو وقت دے تاکہ وہ اس طرح کھل جائے کے وہ ہر بات بلا جھجک والدین کو بتائے ، اپنے بچوں کو اس سکول اور مدرسے میں داخل کروایا جائے جہاں خود والدین تسلی کر اور وہاں اساتذہ پر نظر رکھی جائے اور ہر روز نہ ہو تو ہفتے میں ضرور والدین خود وزٹ کیا کرے۔
حکومت بھی اپنی زمہ داری نبھائے اور جو لوگ ایسے کاموں میں ملوث ہو ان کو ایسی سزا دی جائے کے وہ معاشرے کے لیے عبرت بن جائے ۔ سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائے جائے تاکہ لوگوں میں آگاہی آجائے اور ساتھ ہی جو لوگ اس کے لیے آواز اٹھاتے ہیں ان کو حفاظت فراہم کیا جائے، ڈراموں میں ساس بہو کی لڑائی کے بجائے اس چیز پر فوکس کیا جائے تاکے معاشرے میں شعور پیدا ہوں اور لوگوں سے ڈر ختم ہوجائے اگر کوئی بندہ شکار ہوتا ہے تو وہ اپنی آواز اٹھا سکے۔ معاشرے کے ہو فرد کی زمہ داری بنتی ہے کے وہ اس ناسور کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔