Live Updates

تحریک انصاف کی حکومت کے 100 دن‘عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشان

حکومت نے اپنا ہوم ورک صحیح طریقے سے نہیں کیا‘پارلیمان کو تقریباً غیر فعال کردیاگیا ہے. اپوزیشن

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 26 نومبر 2018 11:55

تحریک انصاف کی حکومت کے 100 دن‘عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشان
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26 نومبر۔2018ء) پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے 100 روز آج مکمل ہورہے ہیں اور اس عرصے کے دوران حکومت کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور حکومت اچھی کارکردگی کا دعویٰ کرتی نظر آئی. پہلے 100 روز میں اقتصادی صورتحال کی بہتری، پارلیمنٹ میں ناراض اپوزیشن، سعودی عرب سے بیل آﺅٹ پیکج، تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج، یو ٹرن، دوبارہ ابھرتی دہشت گردی، بھارت سے امن کی کوشش اور سب سے بڑھ کر سادگی مہم حکومت کی اہم خصوصیات تھیں.

(جاری ہے)

ایک رپورٹ کے مطابق جہاں ایک جانب حکومتی جماعت اپنی 100 روزہ کارکردی کو قابل ذکر کامیابیاں کہتے ہوئے دعویٰ کررہی ہے کہ ملک صحیح سمت پر چل پڑا ہے تو وہیں اپوزیشن جماعتیں حکومت کی 100 روز کی کارکردگی کو ’غیر متاثر کن، مضحکہ خیز اور مکمل جھوٹ اور یو ٹرن‘ قرار دے رہی ہیں. واضح رہے کہ 25 جولائی کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت کا پر عزم ایجنڈ‘ پیش کیا تھا جس میں حکومت آنے کی صورت میں پہلے 100 روز میں پارٹی کی جانب سے شروع کیے جانے والے کام پر روشنی ڈالی گئی تھی.

اس ایجنڈے کی نمایاں خصوصیات میں وفاق کے زیر انتظام قبائی علاقوں کا خیبرپختونخوا سے جلد انضمام، پنجاب کی 2 حصوں میں تقسیم اور علیحدگی پسند بلوچ راہنماﺅں سے مصالحت شامل تھی. اس کے علاوہ 100 روزہ ایجنڈے میں کراچی کے لیے ترقیاتی پیکج کا آغاز اور غربت کے خاتمے کے لیے پروگرام کے ساتھ ساتھ معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات بھی شامل تھے. تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی پالیسی کے اہم نکات بیان کرتے ہوئے اسد عمر جو اس اب وزیر خزانہ ہیں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ حکومت ایک کروڑ ملازمتیں دینے، مینوفکچرنگ بحال کرنے، تیزی سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری شعبے میں اضافہ، 50 لاکھ گھر کی تعمیر کے لیے نجی شعبے کا تعاون، ٹیکس اصلاحات اور ریاستی اداروں کی بحالی کا کام کرے گی.

تاہم انتخابات کے بعد وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ایک رسمی پریس کانفرنس میں اسد عمر نے کہا تھا کہ پہلے 100 دنوں میں عوام کو کسی ریلیف یا سبسڈی کی پیشکش کرنا لولی پوپس دینے کے مترادف ہے. انہوں نے کہا تھا کہ پہلے 100 روز میں ملک کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ’جو ہم نے وعدہ کیا تھا اس کے لیے ایک واضح سمت مل جائے گی.

تاہم اپوزیشن کا یہ الزام ہے کہ حکومت تقریباً تمام معاملات خاص طور پر معیشت اور امن و امان کی صورتحال میں کامیابی دکھانے میں مکمل ناکام ہوگئی. اپوزیشن کے مطابق حکومت نے اپنا ہوم ورک صحیح طریقے سے نہیں کیا‘قومی اسمبلی کی کمیٹیاں بنانے میں تاخیر نے پارلیمان کو تقریباً غیر فعال کردیا اور اسپیکر اسمبلی اسد قیصر جو ایوان کو بہتر انداز میں چلانے کی جدوجہد کر رہے ہیں، انہیں سب سے طاقتور پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے معاملے پرحکمران جماعت تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں میں جاری رسہ کشی کے باعث ایک مشکل صوتحال کا سامنا ہے.

اسد قیصر نے پارلیمانی کمیٹیوں کے قیام کا عمل روک دیا ہے کیونکہ اپوزیشن کی جانب سے یہ دھمکی دی گئی ہے کہ اگر پارلیمانی روایت کے تحت پی اے سی کی چیئرمین شپ قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کو نہیں دی گئی تو وہ تمام پینلز پر بائیکاٹ کردے گی. دوسری جانب حکومت کی جانب سے لیے گئے یوٹرن پر اپوزیشن جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کو یہ یاد دہانی کرائی کہ کابینہ کے پہلے اجلاس میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ پہلے 3 ماہ میں وزیر اعظم کسی غیر ملکی دورے پر نہیں جائیں گے اور وہ صرف کمرشل فلائٹس میں سفر کریں گے لیکن اس عرصے کے دوران وہ سعودی عرب، چین، یو اے ای اور ملائیشیا کے دورے پر گئے اور خصوصی طیارہ استعمال کیا.

اپوزیشن کے مطابق وزیر اعظم نے سعودی عرب، چین اور یو اے ای کے سامنے بھیک کا پیالہ پھیلا کر غیر ملکی قرض نہ لینے کے وعدے سے بھی یوٹرن لیا.  اقتصادی اعشاریوں کے مطابق جی ڈی پی کی شرح نمو معتدل رہی، مہنگائی میں اضافہ ہوا، زرِمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی آئی. اس کے علاوہ ملک کی کیپیٹل، پراپرٹی اور کرنسی مارکیٹ بھی نیچے کی جانب گامزن رہی، تاہم اس وقت ملک کی حالت بہت مشکل ہے لیکن یہاں ہار مان لینا حکومت کے لیے ٹھیک نہیں ہوسکتا.

حکومت کو ورثے میں جی ڈی پی 5.8 فیصد تک ملی تھی اور امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ مالی سال 19-2018 کے دوران یہ 6 فیصد تک پہنچ سکتی ہے. رواں مالی سال کے بجٹ میں جی ڈی پی کے تخمینہ 6.2 فیصد لگایا گیا تھا تاہم نومبر کے مہینے تک یہ 4 فیصد رہی ہے. اسی طرح مہنگائی کی شرح حکومت آنے سے قبل 5.8 فیصد تھی جو اکتوبر کے مہینے تک ہی 6.8 فیصد تک پہچ گئی. ماہرین کی جانب سے خیال کیا جارہا ہے کہ مہنگائی میں موجودہ اضافے میں حکومت کی جانب سے حال ہی میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اہم عوامل ہیں.

دوسری جانب حکومت کی جانب سے بارہا کہا جاتا رہا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ ایسے صارفین پر کیا گیا جو اس بوجھ کو برداشت کر سکتے ہیں جبکہ چھوٹی صنعتوں اور گھریلو صارفین کے لیے نرخ میں اضافہ نہیں کیا گیا. اسی طرح بجلی کے نرخ میں اضافے کے بارے میں حکومت کا موقف ہے کہ نیپرا کی جانب سے اضافہ زیادہ کرنے کی تجویز دی گئی تھی تاہم صرف 1.27 روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا.

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے تاہم حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ 124.04 روپے تھا جو 22 نومبر تک 133.99 روپے تک پہنچ گیا. ترسیلاتِ زر بھی موجود حکومت کے ابتدائی 100 روز میں بچ نہ سکیں اور اس میں بھی کمی واقع ہوئی، جو اگست میں 2 ارب 4 کروڑ ڈالر تھی جبکہ اکتوبر تک اس میں کمی واقع ہوئی اور یہ 2 ارب ڈالر ہیں. نئی حکومت کے ابتدائی 100 روز میں درآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا، جو اگست میں 4 ارب 46 کرروڑ ڈالر تھیں اور بڑھ کر 4 ارب 72 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں.

اس کے برعکس پاکستانی برآمدات میں واضح کمی ہوئی، حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل برآمدات 2 ارب 9 کروڑ ڈالر تھی جو اکتوبر تک کمی ہوکر 2 ارب 6 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی. زرِمبادلہ کے ذخائر اگست میں 10 ارب ڈالر سے زائد تھے لیکن 16 نومبر تک اس میں واضح کمی ہوئی جو اب 7 ارب 29 کروڑ ڈالر ہیں. مالی سال 18-2019 کے دوران پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 10 کھرب روپے مختص کیے گئے تھے جو کم ہو کر 6 کھرب 75 ارب روپے ہوگئے.

پاکستان کے بڑے کاروباری افراد عمران خان کی الیکشن پرفارمنس سے کافی متاثر ہوئے اور ملک میں معیشت کے حوالے سے مزید کام کرنے کے لیے عمران خان سے ہی امیدیں لگائے ہوئے ہیں.ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ملک کو کامیابی کے ساتھ بہتر معیشت کی راہ پر گامزن کرنے میں کسی کے لیے بھی صرف 3 ماہ کا عرصہ بہت کم ہوتا ہے. تاہم وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی ہر تقاریر میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملکی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ابتدائی 6 ماہ کا وقت درکار ہے تاہم عوام کو صرف 6 ماہ کے لیے حکومتی اصلاحات سے ہونے والی پریشانیوں کو برداشت کرنا پڑے گا.
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات