علماء کرام اور مشائخ عظام بھارتی انتہاء پسندی سے پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو پاک فوج کے مددگار اور سپاہی کی حیثیت سے دفاع کرنے کیلئے منظم کریں، اسلام کے اس تصور جہاد کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس کا مقصد دوسروں پر ظلم کرنا اور ان کی زمین اور مال چھیننا نہیں بلکہ انسانیت کو ظلم سے نجات دلا کر اسے امن و آشتی مہیا کرنا ہے، بھارت اپنی آدھی فوج کے ساتھ کشمیر پر حملہ آور ہوا ہے لیکن کشمیریوں کا عزم ہے کہ اگر وہ اپنی پوری فوج بھی لے آئے پھر بھی انہیں زیر نہیں کر سکتا

صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان کا کل جماعتی یکجہتی کشمیر کانفرنس سے خطاب

منگل 17 ستمبر 2019 16:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 ستمبر2019ء) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے علماء کرام اور مشائخ عظام پر زور دیا ہے کہ وہ بھارتی انتہاء پسندی سے پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو پاک فوج کے مددگار اور سپاہی کی حیثیت سے کا دفاع کرنے کیلئے منظم کریں، اسلام کے اس تصور جہاد کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس کا مقصد دوسروں پر ظلم کرنا اور ان کی زمین اور مال چھیننا نہیں بلکہ انسانیت کو ظلم سے نجات دلا کر اسے امن و آشتی مہیا کرنا ہے، بھارت اپنی آدھی فوج کے ساتھ کشمیر پر حملہ آور ہوا ہے لیکن کشمیریوں کا عزم ہے کہ اگر وہ اپنی پوری فوج بھی لے آئے پھر بھی انہیں زیر نہیں کر سکتا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں علماء مشائخ کونسل پاکستان کے زیر اہتمام کل جماعتی یکجہتی کشمیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

کانفرنس سے صاحبزادہ سلطان فیاض الحسن قادری، پیر امین الحسنات، مولانا فضل الرحمان خلیل، صاحبزادہ پیر خالد سلطان، حضرت پیر سلطان العارفین صدیقی، بریگیڈیئر (ر) محمد نواز جنجوعہ، صاحبزادہ سلطان احمد علی، عبد الرشید ترابی، صاحبزادہ سعید الحسن عباسی، عظمیٰ گل، عبداللہ گل، مولانا طارق محمود یزدانی، پیر شمس الامین اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا جبکہ ملک بھر سے علماء کرام اور مشائخ عظام کی بڑی تعداد نے کانفرنس میں شرکت کی۔

صدر آزاد کشمیر نے تقریب کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس، بجرنگ دھل اور دوسری انتہاء پسند جماعتوں نے ایکا کر لیا ہے اور وہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ بھارت اور کشمیر سے مسلمانوں کا خاتمہ، پاکستان کو دولخت اور آزاد کشمیر پر حملہ کر کے اسے بھارت کا حصہ بنائیں گے۔ بھارت نے کشمیریوں پر مظالم کے علاوہ آسام کے شہریوں کی شہریت یہ کہہ کر ختم کر دی ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور یہی عمل وہ اب اتر پردیش اور ہریانہ میں دہرانے والے ہیں۔

بھارتی ہندو انتہاء پسندوں نے جس جنگ کا آغاز کیا ہے وہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ یہ وہ ٹائم بم ہے جو خود بھارت کو بھسم اور اس کی بنیادوں کو ہلا دے گا کیونکہ بھارت کے نچلی ذات کے ہندو اور سیکولر سوسائٹی اس کو اپنے خلاف اعلان جنگ سمجھتی ہے اور وہ اب دبے الفاظ میں کہہ رہے ہیں یہ ہندو مذہب اور اسلام کی جنگ نہیں بلکہ امن و آشتی او رفسطائیت کے درمیان جنگ ہے۔

مودی اور اس کے ساتھی تصادم کی اس راہ پر چل پڑے ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کو بھی تباہی کی طرف لے جائے گا اور یہ بات ہم بار بار بھارت کے عوام کو بتا رہے ہیں کہ اگر وہ اس خطہ میں امن و آشتی چاہتے ہیں تو مودی اور آر ایس ایس کا نظریہ مسترد کر دیں اور کشمیریوں کو ان کا حق دیں۔ انہوں نے دین اسلام کو انسانیت کی بھلائی کا دین قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دین اسلام کے ہی وہ زریں اصول ہیں جنہیں دنیا نے جنیوا کنونشن کی صورت میں جنگی اصول اور قوانین کے طور پر اختیار کر لیا ہے۔

بھارت کے اس دعویٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ آزادکشمیر پر قبضہ کر کے اسے دوبارہ بھارت کا حصہ بنائیں گے، صدر آزادکشمیر نے کہا کہ یہ خطہ کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ موجودہ آزادکشمیر کو یہاں کے عوام نے ڈوگرہ فوج سے لڑ کر آزادکرایا تھا اور اسے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے بیس کیمپ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر نہ صرف تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے بلکہ یہاں قائم حکومت ریاست جموں وکشمیر کی نمائندہ حکومت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے 50، 60 سال کی تاریخ میں پہلی بار دنیا پاکستان اور کشمیریوں کے مؤقف سننے کیلئے آمادہ نظر آتی ہے اور آج لندن اور برسلز سے لے کر امریکہ تک کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور کشمیری عوام کے موقف کو قبولیت مل رہی ہے۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ کشمیریوں کا یہ عزم ہے کہ وہ آزادی لے کر رہیں گے خواہ اس کیلئے مشکلات کے کتنے ہی ہمالیہ کیوں نہ کھڑے کر دئیے جائیں۔

ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں جس قوم نے بہتر سال تک آزادی کے لئے جدوجہد کی اور بغیر ہتھیاروںکے ایک مسلح ترین فوج کا مقابلہ کیا اسے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھی تحریر میں تبدیلی سے مغلوب نہیں کیا جا سکتا ہے۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ 1947ء سے 1958ء تک کے عرصہ میں جب پاکستان معاشی اور سفارتی طور پر کمزور تھا لیکن اس کے باوجود اسے کشمیر کے حوالے سے میدان جنگ میں اور سفارتی محاذ پر زبردست کامیابیاں حاصل ہوئی آج اللہ کے فضل و کرم سے یہ ملک ایک ایٹمی طاقت ہے اسے کامیابی سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی لیکن اس کے لئے ہمیں عزم و ہمت سے اپنی جدوجہد کو آگے لے جانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ علماو مشائخ نے تخلیق پاکستان میں بے مثال تاریخی کردار ادا کیا اور آج دفاع پاکستان اور آزادی کشمیر میں بھی ان سے ہم اسی تاریخ کردار کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپ اور امریکہ میں علما مساجد کو اپنا مرکز بنا کر کشمیریوں کی پرامن جدوجہد آزادی کو اجاگر کریں اور دنیا پر واضح کریں کہ یہ جدوجہد حق و انصاف اور عالمی قوانین کے عین مطابق ہے۔