بھارت کے کنسرنڈ سٹیزن گروپ کا مقبوضہ کشمیر میں 10 ماہ سے جاری لاک ڈائون اور اب کورونا لاک ڈائون سے پیدا شدہ صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار، پابندیوں میں فوری نرمی کا مطالبہ

اتوار 24 مئی 2020 02:25

! اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 مئی2020ء) بھارت کے کنسرنڈ سٹیزن گروپ نے مقبوضہ کشمیر میں 10 ماہ سے جاری لاک ڈائون اور اب کورونا لاک ڈائون سے پیدا شدہ صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پابندیوں میں فوری نرمی کا مطالبہ کیا ہے اور اس کیلئے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ یشونت سنہا، وجاہت حبیب اللہ، کپل کاک، بھارت بھوشن اور سبھوشا بریو پر مشتمل کنسرنڈ سٹیزن گروپ نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر 5 اگست ، 2019 سے معاشرتی ، معاشی ، سیاسی اور مواصلاتی لاک ڈائون میں ہے۔

مودی حکومت کے مسلط کردہ لاک ڈائون کو اب دو بار کورونا وائرس وبائی بیماری سے تقویت ملی ہے۔ اگرچہ کورونا وباء کے خدشات کے پیش نظر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پس منظر میں چلی گئی تھی لیکن بھارتی حکومت کی طرف سے اسلامو فوبیا کی وجہ سے توجہ دوبارہ اس طرف مبذول ہو گئی ہے اور یہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی بن گیا ہے۔

(جاری ہے)

ایک سابق وزیر اعلی سمیت متعدد سینئر سیاسی قائدین ، متعدد الزامات میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں ہیں۔

بلدیاتی انتخابات اور ایک نئی سیاسی پارٹی کے آغاز کی سہولت فراہم کرنے کے ذریعے مصنوعی سیاسی عمل کو تیز کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ تاہم یہ عمل بھی سیاسی خلا کو پر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مودی حکومت نے لاک ڈائون کا موقع بھی کشمیر ڈومیسائل کے نئے کالے قوانین کے زبردستی نفاذ کے لئے استعمال کیا ہے۔ انتظامیہ مقامی عوامی نمائندوں اور فوٹو جرنلسٹس کو ہراساں کر رہی ہے اور انہیں جائز پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی سے روکا جا رہا ہے۔

ان میں سے متعدد کو نامناسب اوقات میں تھانوں میں بلایا گیا ہے۔ ادارتی شکایت کے طریقہ کار اور پریس کونسل آف انڈیا کو استعمال کرنے کے بجائے انتظامیہ ریاستی پولیس کو صحافیوں سے نمٹنے کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ مواصلاتی لاک ڈاو ٴن کی صورتحال یہ ہے کہ صرف 2 جی انٹرنیٹ کی اجازت ہے جو صرف بینکاری ، تجارت ، کاروبار اور صحت کی دیکھ بھال بلکہ تعلیم کے میدان میں بھی تباہی کا باعث ہے۔

2 جی ٹیکنالوجی آن لائن لرننگ کیلئے استعمال نہیں ہوسکتی ہے ، جو کہ ملک کے باقی حصوں میں مستعمل ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر ان طلباء کے لئے سخت مشکل کا باعث ہے جو کورونا وباء کی وجہ سے باقی ہندوستان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں واپس آئے ہیں۔ وہ آن لائن کلاسوں اور ویبینارز میں شریک نہیں ہوسکتے نہ ہی وہ اسائنمنٹ جمع کر ا سکتے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ وہ آن لائن سمسٹر امتحانات کے لئے بھی حاضر نہ ہو سکیں جن کو یونیورسٹاوں اور کالجز جلد منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے حکومت کا یہ مئوقف کہ انٹرنیٹ تک رسائی بنیادی حق نہیں ہے خود بھارتی عدالت عظمیٰ کے اپنے فیصلوں کے خلاف ہے جو معلومات کو آئین کے آرٹیکل 19 (1) کے تحت بنیادی حق قرار دیتی ہے۔ معیشت بھی بدترین بدحالی کا شکار ہے کیونکہ ایسی ریاست کے لئے جس کی معیشت کا انحصار سیاحت اور باغبانی پر ہے اس لاک ڈائون کی وجہ سے سیاحت کے دو سیزن بغیر کسی کاروبار کے گزر چکے ہیں اور پھلوں کی پیداوار کی مارکیٹنگ کو سخت رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

چیری کا سیزن چل رہاہے اور ناشپاتی اور سیب کی ابتدائی اقسام جلد تیار ہونگی۔ کاشتکار مناسب تقسیم اور مارکیٹ تک رسائی کے فقدان کی وجہ سے فصلوں کو تباہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ کاریگروں کو شدید تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دستکار کام نہیں کرسکتے جبکہ ان کے لئے کسی قسم کے امدادی اقدامات کا اعلان نہیں کیا گیا۔ باقی بھارت کے برعکس مقبوضہ جموں و کشمیر میں بینک قرضوں میں کوئی سہولت نہیں دی گئی۔

اس کے علاوہ ، جموں و کشمیر کے لوگ کورونا وائرس وبائی مرض اور اس کے پھیلائو سے نمٹنے کے لئے صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کی عدم دستیابی سے پریشان ہیں۔ خاص طور پر مقبوضہ وادی کشمیر میں کورونا سے متاثرہ افراد جموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ جموں و کشمیری تارکین وطن ، بزنس مین اور ملک اور بیرون ملک سے آنے والے طلبہ کی واپسی ، جو سرحدی داخلی مقامات پر مناسب جانچ اور کورانٹین کے بغیر ہی واپس آچکے ہیں ، نے ریاست میں تشویش میں اضافہ کیا ہے۔

صرف وادی کشمیر میں ایک اندازے کے مطابق 50 سے 70 ہزار افراد واپس آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صورتحال سے تنگ نوجوانوں میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے اور مزید متاثرہ نوجوان عسکریت پسندی میں شامل ہورہے ہیں۔ ان حالات میں سٹیزن گروپ نے سفارش کی ہے کہ تمام سیاسی رہنمائوں کو رہا کیا جائے اور ایسا فیصلہ کرنے کا بہترین موقع عید الفطر ہے۔

قانون ساز اسمبلی کی کمی کو طویل المیعاد نتائج کی حامل پالیسیوں کے نفاذ کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ میڈیا اہلکاروں کو دھمکانا بند کیا جائے۔ تاجروں، محکمہ صحت کے پیشہ ور افراد اور طلبائ کی پریشانیوں کے خاتمے کے لئے جموں و کشمیر میں 4 جی انٹرنیٹ رابطے بحال کئے جائیں تاکہ وہ تعلیمی سال سے محروم نہ ہوں۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح جموں و کشمیر میں بھی بینکقرضے موخر اور سہولیات میں اضافہ کیا جائے۔ باغبانی کی پیداوار کے لئے مارکیٹ تک بلاوکاوٹ رسائی اور تقسیم کے مناسب ذرائع کو یقینی بنایا جائے۔