کشمیریوں نے اپنی قسمت پاکستان کے ساتھ اُس وقت وابستہ کی تھی جب پاکستان وجود میں بھی نہیں آیا تھا،سردار مسعود خان

19 جولائی 1947کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فورم سے قرار داد الحاق پاکستان ایک تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا ،صدر آزاد جموں و کشمیر

جمعرات 13 اگست 2020 21:22

مظفرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 اگست2020ء) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ کشمیریوں نے اپنی قسمت پاکستان کے ساتھ اُس وقت وابستہ کی تھی جب پاکستان ابھی وجود میں بھی نہیں آیا تھا ۔ 19 جولائی 1947کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فورم سے قرار داد الحاق پاکستان ایک تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔

73 سال گزرنے کے باوجود مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام آج بھی اپنے عہد پر قائم ہیں اور پاکستان کا پرچم تھام کر جدوجہد آزادی میں مصروف ہیں۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے سنٹر فار سیکیورٹی ، اسٹریٹیجی اینڈ پالیسی ریسرچ (سی ایس ایس پی آر)کے زیر اہتمام سمر سکولز 2020 کشمیر بوٹ کیمپ کے اختتامی سیشن میں ’’کشمیر تنازعہ ، بحران اور مذاکرات ‘‘ کے عنوان پر ویب کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

سی ایس ایس پی آر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر رابعہ نے کانفرنس کی کارروائی کو کنڈیکٹ کیا جب کی چالیس سے زیادہ طلباء نے اس ایونٹ میںشرکت کی ۔ صدر سردار مسعو د خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کشمیریوں کے اجتماعی احساسات اور سوچ کا مظہر تھا جسے مہاراجہ کشمیر ، بھارتی حکومت اور برطانوی سامراج نے مل کر ناکام بنایا اور کشمیریوں کی مرضی اور منشا کے بر خلاف کشمیر کے ایک بڑے حصے کو بھارت کے ساتھ مدغم کرنے کے سازش کی ۔

پاکستان اور بھارت کے قیام کے بعد مہاراجہ اور بھارتی حکومت کے مذموم ارادوں کو بھانپتے ہوئے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے جنگ آزادی شروع کی اور ان علاقوں کو ڈوگرہ حکمران سے آزاد کرایا ۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر بھارت نے اکتوبر 1947 میں سرینگر میں اپنی فوج کو نہ اُتارا ہوتا تو آج پوری ریاست جموں و کشمیر آزاد ہوتی ۔ اُنہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے اس وقت پاکستان کا پہلا دفاعی حصار ہیں ۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ مقبوضہ ریاست کے عوام گزشتہ سات دہائیوں سے بھارت کے مظالم سہہ رہے ہیں لیکن گزشتہ سال پانچ اگست کے بعد وہ بھارتی فوج کے بد ترین فوجی محاصرے میں ہیں جہاں قابض فوج نے نہ صرف حملہ کر کے ریاست پر دوبارہ قبضہ کیا ہے بلکہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کو براہ راست دہلی کی عملداری میں دے دیا ہے ۔

بھارتی فوج نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں قتل غارت گری میں اضافہ کر دیا ہے ، نوجوانوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے اور ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر کے غائب کر دیا گیا ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اب بھارتی حکومت نے مذید ایک قدم اُٹھاتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں نئے ڈومیسائل قوانین کا سہارا لے کر بھارتی شہریوں کو مقبوضہ ریاست میں آباد کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے جو بین الاقوامی قوانین اور معائدات ک کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔

صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانیت کے خلاف جرائم ، جنگی جرائم ، نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر گزشتہ صدی میں ایسے ہی جرائم کا ارتکاب کرنے والو ں کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا تو یہی انجام بھارت کا بھی ہونا چاہیے ۔

لیکن بد قسمتی سے بھارت کو دنیا کے بڑی طاقتوں کے ساتھ نام نہاد اسٹریٹیجک تعلقات کے باعث کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ بھارت مغربی طاقتوں کو چین کے مقابلہ میں کھڑا ہونے کا جھانسہ دے کر بین الاقوامی محا سبے سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ بھارت کے وزیراعظم مودی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سمیت دیگر بھارتی رہنما اعلانیہ دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف جو ہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک جوہری ملک دوسرے جوہری ملک کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور دنیا خاموش ہے ۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بین الاقوامی برادری کے رد عمل پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ عالمی میڈیا ، سول سوسائٹی ، عالمی پارلیمانز اور انسانی حقوق کے اداروں اور خاص طور پر پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی نے تنازعہ کشمیر کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اُنہوں ن خاص طور پر کشمیری کمیونٹی کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ممالک میں سیاسی رہنماوں تک ستم رسیدہ کشمیریوں کی آواز پہنچانے کے لیے ہماری کمیونٹی نے انتھک محنت کی ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم نے سفارتی محاذ پر کام کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر تین بار غیر رسمی اجلاس بلانے میں کامیابی حاصل کی اور سلامتی کونسل کا آخری اجلاس اس سال پانچ اگست کے دن اُس وقت ہوا جب کشمیری دنیا بھر میں بھارت کے مقبوضہ ریاست پر دوبارہ حملے کا دن منا رہے تھے ۔ اس جلاس کی علامتی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔