کراچی کے مقامی ہوٹل میں جسٹس ہیلپ لائن کے زیراہتمام پانچویں نیشنل جوڈیشل کانفرنس منعقد کی گئی

اس وفاقی حکومت کا صرف ایک ایجنڈہ ہے وہ ہے صرف رول آف لا،وفاقی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ کام کیا جائے جس میں فلاح بہبود ہو ، ایسا کوئی کام کیا جائے جس میں کرپشن میں داستان ہو، وفاقی وزیر قانون

ہفتہ 17 اکتوبر 2020 21:25

کراچی کے مقامی ہوٹل میں جسٹس ہیلپ لائن کے زیراہتمام پانچویں نیشنل جوڈیشل ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 اکتوبر2020ء) کراچی کے مقامی ہوٹل میں جسٹس ہیلپ لائن کے زیر اہتمام پانچویں نیشنل جوڈیشل کانفرنس منعقد کی گئی ۔ پانچواں نیشنل جوڈیشل کانفرنس میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی،وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، ترجمان سندھ حکومت، مرتضی وہاب، سندھ بار کونسل، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کراچی بار کے رہنما ، سینئر وکیل شہاب سرکی ، سمیت نوجوان وکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

کانفرنس میں رول آف لا، عدلیہ کی آزادی سمیت دیگر امور پر خطاب کیا گیا۔ کانفرنس سے خظاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون فروغ نے کہا کہ اس وفاقی حکومت کا صرف ایک ایجنڈہ ہے وہ ہے صرف رول آف لا،وفاقی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ کام کیا جائے جس میں فلاح بہبود ہو ، ایسا کوئی کام کیا جائے جس میں کرپشن میں داستان ہو ، کل کیسی نے یہ کہا کہ پاناما کیس ایک سازش تھی ، کیا وزیر اعظم یا جنرل قمر باجوہ یا جنرل فیض نے کہا تھا کہ ایون فیلڈ میں جائداد لیں، ان کے پاس تو منی ٹریل بھی نہیں، جسٹس جاوید اقبال ایک ایماندار آدمی ہی ہیں، وزیر اعظم کا کوئی مقصد نہیں ہے کہ کیسی کے خلاف کیس بنایا جائے، کیا عمران خان یا فوج نے کہا کہ منی ٹریل نہ دیں، اس وقت پاکستان دفاعی موومنٹ میں ہے، دنیا جہاں کے وزرا کے خلاف پاناما نے جب انکشاف کیا تو سب نے اپنی وضاحت دی ہے ، کیسی نے کہا کے جسٹس شوکت کے خلاف انتقامی کارروائی کی ، یہ عمران خان نے نہیں سپریم جوڈیشل کونسل نے کی ہے ، یہ فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ ہے ، اس کیس میں عمران خان کا کیا تعلق ہے ، پاکستان ایک عظیم ملک ہے یہاں زبردست لوگ ہیں۔

(جاری ہے)

اگر آپ اپنی عدلیہ اور ریاستی اداروں کی عزت نہیں کریں گے تو کچھ نہیں بنتا،پاکستان اور پاکستانی عوام نے ایسی بیانیہ کو مسترد کردیا ہے ، کیا ججز سے کوئی زبردستی فیصلے کروا سکتا ہے۔ پاکستان کے ریاستی ادارے ہماری عزت ہیں، جب عدالت نے فیصلہ دیا تو ن لیگ کی ہی حکومت تھی ، پاکستان کو آگے لیکر چلنا ہے تو ریڈ لائن میں رہے کر کرنا ہوگا ، کرپٹ پولیٹیکل لیڈرشپ کی وجہ سے ملک کی یہ صورتحال ہے ، کیسی بھی طرح کرپٹ فرسودہ سیاسی لیڈران کو قبول نہیں کر سکتے ، کیسی پر بھی الزام ہے تو منی ٹریل دیں، یہ جتنے بھی فیصلے ہیں وہ سپریم کورٹ کے اپنے ہیں، کیا منی لانڈرنگ کو بھول جائیں، کیا عوام کو یہ سب چیزیں معلوم نہیں ہے، عوام کو کنفیوز نہیں ہونا ہے ، آپ منی ٹریل آخر کیوں نہیں دیتے ، جس کے پاس منی ٹریل ہوتا ہے وہ فورا دیتا ہے ، جس کے پاس نہیں ہوتا وہ یہاں وہاں کی باتیں کرتا ہے، آپ لوگوں کے درمیاں بیٹھ کر مجھے ایسا لگ رہا ہے میں اپنے آپ میں آگیا ہوں ،وکالت میں شارٹ کٹ نہیں ہے،وکالت کیسی کی ملکیت نہیں ہے ، یہ ہے وہ نیا پاکستان جس کے بارے میں ہم ہمشیہ سوچتے آرہے ہیں، خواتین کیلئے ہم نے بہت ترامیم کی ہیں، یہ مین دومینٹ سوسائٹی ہے ، عورت کے والد کے یا شوہر کے موت کے بعد ان کے بھائی یا دیگر رشتے دار ان پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

سابق چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان سے لیکر اس ملک کی 73 سالا تاریخ ہمارے سامنے ہے، نا اہل اور بدترین قیادت، مارش لاکی وجہ سے ملک فرقہ پرستی سمیت دیگر معمالات کا شکار ہے، ذاتی مفادات کی سیاست کی وجہ سے بنگال پاکستان الگ ہوگیا ، ہم نے 1971 سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ، ہمیں 73 کا آئین بھی مل گیا لیکن ہم نے تعصب بدنیت کی سیاست کو خیر آباد نہیں کیا ، ملک کے نا اہل اور کرپٹ لیڈرشپ نے ملک کو اس حالت میں پہچایا ہے ، ملک کی آبادی میں بے پناہ اضافے پر کام کرنے کی ضرورت ہے، آئین میں واضح کردہ بنیادی حقوق ہر شہری کا بنیادی حق ہے ، ان حقوق کو کیسی بھی طرح مسخ نہیں کرنا چاہیے۔

مجھ کو سن کر افسوس ہوتا ہے کہ سینکڑوں ایسے فیصلے کیے گئے جہاں یک طرفے فیصلے کیے گئے۔ترجمان سندھ حکومت بریسٹر مرتضی وہاب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اصل وکالت لوئر جوڈیشری سے ہوتی ہے،عام آدمی کو انصاف ہی ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالتوں سے ملتا ہے، حکومت کا کام عدالتوں کے معاملات میں بلکل بھی نہیں ہے، عدالت کیسی چلتی ہیں کیسی چلائیں جائیں یہ عدالت کا اپنا کام ہے، ہمیں حکم ملے گا ہم عملدرآمد کریں گے، اس مشکل حالات میں ہمیں اگر کہا جائے کہ گاڑیاں دین تو ہم دے دینگے، اگر ہم کیا جائے کہ ہمیں ریسٹورنٹ کیلئے جگہ چاہیے وہ بھی ہم دے دیں گے،جب تک ہم ایک دوسروں کا احترام نہیں کریں ایک دوسرے کے مسائل نہیں سمجھے گے ہم انصاف نہیں کر سکتے ہیں، ملک کی عدالتوں میں 18 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، ان ہزاروں مقدمات کا فیصلہ ہم نہیں کر پا رہے ، جب مجھے زیر التوا مقدمات کی تعداد پتا چلا بڑی تعجب ہوئی ، ہمیں ان معاملات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

جب تک ہماری نظام عدل سو فیصد انصاف نہیں دے پائیں گے تو ہم وکلاکیلئے بھی مسئلے ہونگے، اب اس بات پر بحث ہونی چاہیے کہ غریب انسان کو کیسے انصاف ملے ، سندھ حکومت وکلاکے ساتھ بیٹھے کو تیار ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ معاملات حل ہوں ، عام آدمی کے مسئلے مسائل بھی حل ہونے چاہئیں۔ عدالتوں پر مقدمات کی تعداد بڑھنے سے دباو اتنا بڑھ گیا کہ کیسز نمٹائے نہیں جاتے،ہم سے جو مدد چاہیے، حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے ، جس معاملے پر قانون سازی چاہیے، سندھ حکومت بلکل ان کے ساتھ تعاو ن کرے گی ، عدل بنا جمہور نہیں ہوگا، عدل بنا دیس ہمارہ کبھی بھی چکنا چور نہیں ہوگا ، ہر شخص کو عدل انصاف کے مسائل ہیں، پیسے والا انصاف لے جائے گا، لیکن عام آدمی ایسا نہیں کر سکتا، ہمیں ایسے نظام پر کام کرنا چاہیے جو جلدی انصاف فراہم کرے۔