افغانستان سے امریکہ نکل رہا ہے موجودہ صورت حال انتہائی نازک ہے ،میاں افتخار حسین

ایسی صورت حال میں اکثر میرے خلاف دائرہ تنگ کیا جاتا ہے 2010 سے لیکرآج تک کسی نہ کسی طریقے سے مجھے اذیت سے گزار اجاتا ہے،مرکزی سیکرٹری جنرل عوامی نیشنل پارٹی

بدھ 7 جولائی 2021 00:42

پبی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 جولائی2021ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکہ نکل رہا ہے موجودہ صورت حال انتہائی نازک ہے ایسی صورت حال میں اکثر میرے خلاف دائرہ تنگ کیا جاتا ہے 2010 سے لیکرآج تک کسی نہ کسی طریقے سے مجھے اذیت سے گزار اجاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوشہرہ میں اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔

میاں افتخار حسین نے کہا کہ اخباری ایجنسی نے میرے شہید بیٹے میاں راشد حسین شہید کے کیس کے متعلق پولیس زرائع سے جو خبر شائع کی اس پر مجھے انتہائی افسوس ہوا اور اس میں یہ الزام لگایا ہے کہ مدعی اس کیس میں دلچسپی نہیں لے رہے یہ خبر ایسے وقت میں دی گئی کہ ملک میں ایک بار پھر دہشت گرد منظم ہورہے ہیں میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میری لڑائی کسی فرد کے خلاف نہیں میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں نہ کوئی جائیداد کا تنازعہ ہے اور نہ میر ا کوئی ایسا زریعہ معاش ہے جس سے میر لیے کوئی مسئلہ بنے یا مجھے کسی بات پر ندامت ہو انہوں نے کہا کہ میرے ابا و اجداد نے شرافت کی زندگی گزاری اور میں خود بھی 1988 سے عوامی سیاست کرتا ارہا ہوں اور عوام کی خدمت میرا شعار رہا ہے اور یہ بات پوری قوم پر واضح ہے میں شرافت کی سیاست کی ہے اور میرے اوپر کوئی داغ نہیں۔

(جاری ہے)

میاں افتخار حسین نے کہا کہ میں خان عبدالغفار خان باچا خان کے عدم تشدد کے فلسفے کا پیر وکار ہوں اور جب ہماری حکومت بنی دہشت گردی انتہا پر تھی اور ریاست کا بیانیہ دہشت گردی کے خاتمے کی پالیسی پر گامزن تھا اور میں حکومت کا ترجمان تھا اسی ریاستی پالیسی کو میں نے پروان چڑھا یا اور اسی کے پاداشت میں میرے اکلوتے بیٹے کو نشانہ بنایا گیا اس میں باقاعدہ ایف ائی ار درج ہوا مدعی اس میں موجود تھے پھر پولیس نے خود اپنے کارندوں کے زریعے کچھ لوگوں کو شامل تفتیش کیا اور گیارہ سال گزر گئے بانڈہ نبی کا ایک شخص جو کہ صالح خانہ میں پیش امام تھا اور اس کو پولیس نے نامزدکیا تھا جبکہ ہمارا ایف ائی ار نامعلوم افراد کے خلاف تھا اسی طرح پولیس نے دو افراد بدرشی کے نامزدی کیے جبکہ ساتھ ہی ایک خویشگی اور ایک موضع کنڈر کا شخص بھی نامزد کیا گیارہ سال گزرنے کے باوجود نہ تو کوئی گرفتار ہو ا اور نہ ہی کسی کے خلاف تفتیش کی گئی اور ہر باریہ کہا گیا ہمارے ہاتھ کوئی نہ لگ سکا اس دوران کراچی میں تحریک طالبان کا کمانڈر قیوم گرفتار ہوا جو کہ کراچی میں سات دہشت گردی کے واقعات ٹارگٹ کلنگ میں مطلوب تھا۔

میاں افتخار حسین نے کہا کہ تفتیش کے دوران طالبان کمانڈر قیوم نے میاں راشد حسین شہید کی شہادت کی ذمہ داری خود قبول کی انہوں نے کہا کہ پاکستان میں میاں راشد شہید کایہ واضح کیس ہے کہ دہشت گرد کمانڈر قیوم خودکہتاہے کہ میں بیت اللہ مقصود کے ہاں تربیت حاصل کرچکا ہوں اور پھر مجھے حکیم اللہمحسودکے حوالے کیا اور اسنے مجھے پنجابی دہشت گرد کمانڈر کے پاس تربیت کے لیے بھیجا اور اسی طرح میں نے طالبان کمانڈ حکیم اللہ محسود کی سرپرستی میں کاروائیاں جاری رکھی اور اسی دوران مجھے میاں راشد شہید کو قتل کرنے کا ٹاسک ملا اور اس نے مجھے دو بندے دیے ایک کا نام نقیب اللہ اور دوسرے کا نام کلیم اللہ تھا اور مجھے سفید کورولا گاڑی دیکر پبی بجوایا اور ہم نے پشاور کے ایک ہوٹل میں رات گزاری جو حکیم اللہ محسود کا جا ننے والا تھا کمانڈر قیوم کے مطابق میاں راشد حسین شہید کی جاسوسی کی ذمہ داری قلیم اللہ نقیب اللہ کی تھی اور یہ نیٹ ور ک 2012 میں اشکارہ ہوا ۔

میاں افتخار حسین نے کہا کہ مجھے حق حاصل ہے کہ میں پولیس سے پوچھو کے اتنی معلومات ملنے کے باوجود کیا پیش رفت کی انہوں نے کہا کہ ایک دہشت گرد سند ھ میں پکڑا گیا اس نے پوری معلومات دی اور اپنے ساتھیوں کے نام بتائے لیکن گیارہ سال گزرنے کے باوجو د اج تک خیبر پختون پولیس نے تہ تو وہ افراد گرفتارکیے نہ جنہیں انہوں نے خود نامز دکیاتھا وہ گرفتار ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے مقدمہ بالکل واضح ہے اگر ریاست دہشت گردی ختم کرنا چاہتی ہے اور انکی جو پالیسی ہے اس پر ثابت قدم رہنا چاہتی ہے تو میاں افتخار حسین نے ریاست کی پالیسی کو پروان چڑھایا اور اسی کی سزا اس کو دی گئی اب یہ امتحان ریاستی اداروں کا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ جو کمانڈر قیوم گرفتار ہو اس کو شامل تفتیش کرکے سزا دی جاتی الٹا یہ ادارے مجھے دہشت گردوں کے ساتھ مشت گریبان کرنا چاہتے ہیں میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں یہ ادار وں کا کام ہے کہ وہ مجھے انصاف فراہم کرے میں امن اور عدم تشدد کا داعی ہو اور دنیا بھرمیں دہشت گردی کا مخالف ہوں۔