پنجاب کا بلدیاتی قانون آرڈیننس کے ذریعے پاس کیا گیا اور اسمبلی میں آیا تک نہیں،وزیراعلیٰ سندھ

اسلام آباد کا قانون بھی آرڈیننس کے زریعے لایا گیا اور قومی اسمبلی تک نہیں لایا گیا،وہاں تو کوئی بھی اعتراض نہیں ہوا کہ جلدی میں قانون کو پاس کردیا گیا جماعت اسلامی کے احتجاج میں ناصر شاہ صاحب کو بھیجا ہے کہ انکی تجاویز لے آئیں جو وہ چاہتے ہیں بات تو کریں لیکن انکو بات کرنی ہی نہیں ہے، سید مراد علی شاہ

منگل 11 جنوری 2022 00:40

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 جنوری2022ء) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہاہے کہ پنجاب کا بلدیاتی قانون آرڈیننس کے ذریعے پاس کیا گیا اور اسمبلی میں آیا تک نہیں جبکہ اسلام آباد کا قانون بھی آرڈیننس کے زریعے لایا گیا اور قومی اسمبلی تک نہیں لایا گیا،وہاں تو کوئی بھی اعتراض نہیں ہوا کہ جلدی میں قانون کو پاس کردیا گیا، جماعت اسلامی کے احتجاج میں ناصر شاہ صاحب کو بھیجا ہے کہ انکی تجاویز لے آئیں جو وہ چاہتے ہیں بات تو کریں لیکن انکو بات کرنی ہی نہیں ہے۔

بہرحال ہم نے پوری کوشش کی کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ان خیالات اکااظہارانہوں نے پیرکو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ تھر میں پہلی بار2004 میں بائے روڈگیا،جس میں ہمیں مٹھی پہچنے میں آٹھ گھنٹے لگے جہاں دیکھا کہ مٹھی سے دیپلو تک کچھ راستہ خراب تھا بلکہ کچا ایریا تھا۔

(جاری ہے)

تھر کا جو بڑا وسیلہ ہے وہ ہے کوئلہ ہے ،شہید محترمہ بینظیربھٹو کا ویژن تھا، 1992 میں دریافت ہوا اور 1994یا 1995میں اس پر کام شروع ہوا، جب ہماری حکومت آئی تو بلاول ہائوس میں ایک اجلاس بلایا گیا تک زرداری صاحب صدر منتخب نہیں ہوئے تھے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا ایک وژن تھا جسکو آگے بڑھانا ہے۔ اس وقت صدر آصف علی زرداری نے قائم علی شاہ صاحب کو کہا کہ ایک باڈی تشکیل دیں اور میری پوری کوشش ہوگی کہ وفاق سے اس منصوبہ کی منظوری دلواوں اس لئے کہ بجلی کی پیداوار کا معاملہ وفاق سے جڑا ہے تو لہذہ ان کے بغیر کام ممکن نہیں تھا۔ ہم نے ہدایات کے مطابق اس وقت تھرکول اینڈ انرجی بورڈ بنایا اور یہ پاکستان میں واحد ادارہ ہے جہاں وفاق اور صوبائی وزرا ایک ساتھ کام کرتے ہیں جس کے سربراہ وزیراعلی ہیں جبکہ وفاق سے وزیر توانائی وائس چیئرمین ہیں۔

وزیراعلی سندھ نے بتایا کہ 2009 میں یہ قانون بنا جس میں بیوروکریسی کے باعث کچھ مشکلات کا سامنہ کرنا پڑا جسکو اس وقت کے وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ نے اپنے وسائل کے ذریعے حل کیا جس کے بعد ہم نے اسکو آگے بڑھایا۔ تھرکول کا پہلا ٹینڈر ہم کرنے جارہے تھے تو 1997 میں ایک چائنیز کمپنی شینوا کو ایک ٹینڈر ملا ۔ اس وقت آفیس ریٹ 0.25 تھا اور انکی ڈیمانڈ5.57 تھی جبکہ حکومت نے کہا تھا کہ ہم آپکو 5.47 دیں گے۔

جس پر وہ کمپنی رضامند نہیں ہوئی ۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ منصوبہ اس وقت تک نہیں بنے جب تک سندھ حکومت اپنا سرمایہ نہیں لگا لیتی۔ سندھ حکومت نے فیصلہ لیا اور سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی بنائی،تب پہلی40 فیصد سندھ حکومت جبکہ 60 فیصد اینگرو کول کمپنی کا حصہ تھا۔ جب ہم آگے بڑھے تو عالمی فنڈز ہمیں کہی سے بھی نہیں ہوئی جس کی ایک بڑی وجہ ساورین گارنٹی تھی۔

13-2012 میں راجا پرویز اشرف نے کہا تھا کہ ہم ساورین گارنٹی دیں گے لیکن شرط یہ رکھ دی کہ اونرشپ سندھ حکومت کی ہونی چاہئے۔ اس وقت ہمارا شیئر سندھ ایگرو کمپنی میں 54 فیصد ہے۔ یہ واحد منصوبہ تھا جس کیلئے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور آصف علی زرداری صاحب نے مل کر اسکا افتتاح کیا۔ جب اس منصوبے پر پیش رفت کم ہونے لگی تو سندھ حکومت نے صدرزرداری سے بات کی اور انھوں نے مدد کی یقین دہانی کرائی۔

وفاقی حکومت نے ساورین گارنٹی کیلئے بہت سے مسائل پیدا کئے ، جس میں سے ایک یہ تھا کہ ساورین گارنٹی تب دیں گے جب ہمیں اجازت دی جائے کہ جب اس منصوبے پر وفاق کو پیسا دینا پڑے تو آپکا جو حصہ ہے این ایف سی ایوارڈ میں اس میں سے کٹوتی کی جائے ، جس پر ہم نے کہا تھا کہ ہمارا حصہ نہ کاٹیں بلکہ کوئی ڈیمانڈ کریں۔ لیکن ہم نے منصوبے کی خاطر وفاق کی اس شرط کو مانا اور2015 کے بعد یہ چیزیں فائنل ہوئی جبکہ 2018 میں کوئلہ برآمد ہوا اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ہم نے جس سے بھی بات کی انکا یہی کہنا تھا کہ تھر میں کوئی سہولت نہیں ، سب سے پہلے آپکو سڑکوں کا جال بچھانا پڑے گا۔ جس پر ہم کراچی سے مٹھی تا اسلام کوٹ تک بہترین سڑک بنائی جبکہ ننگرپارکر کا کچھ حصہ رہتا ہے اس پر بھی کام جاری ہے۔ مقامی آبادی کیلئے آر او پلانٹس: اس منصوبے میں کچھ مسائل سامنے آئے ۔ کچھ پلانٹس ٹیکنالوجی کے فیل ہونے سے بند ہوگئے لیکن ہمارا مقصد پانی پہنچانا تھا جس پر ہم نے کام کیا اور اس سے پہلے یہ سہولت بھی میسر نہیں تھی۔

اس کے علاوہ صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں کو بھی ترجیح دی گئی۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ سندھ کی واحد حکومت ہے جس نے اپنے خرچ پر ایئرپورٹ بنایا۔اسکے بعد ایک مسئلہ سامنے آیا کہ ٹھٹہ۔سجاول پل جو 1950 کے قریب بنا تھا جس پر ہمیں بتایا گیا کہ جو بھی سامان کی آمدورفت ہوگی تو اسی راستے سے ہوگی اور ہیوی ٹرک کا گذر ہوگا جس کو ہم نے 10 ماہ کے اندر مکمل کیا۔

سندھ کول منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں سندھ حکومت کی اپنی سرمایہ کاری اربوں ڈالرز کی ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں طعنہ دیاجاتا ہے کہ سندھ حکومت نے کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنایا جبکہ لاہور میں اورینج لائن کا بڑا منصوبہ بن گیا ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ہمارا بجلی کا منصوبہ پورے پاکستان کو بجلی دے رہا ہیاور دیتا رہے گا۔ابھی 660 میگاواٹ منصوبہ کی بجلی مٹیاری سے سیدھا فیصل آباد گرڈ اسٹیشن لے جائی جاتی ہے اور انشا اللہ 2000 میگاواٹ کا منصوبہ تقریبا رواں سال ہی مکمل ہوجائے گا جوکہ یہ بھی نیشنل گرڈ میں جائے گی جس سے پورا پاکستان مستفیدہوگا۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ اس منصوبے کا سب پہلا حق مقامی آبادی کا ہے جس پر زیادہ کام نہیں ہوا، لیکن ہم نے پوری کوشش کی ۔ ہم نے اپنے منصوبے سندھ اینگروکول میں مقامی آبادی کو زیادہ حصہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ اینگرو کمپنی کے ساتھ مل کر ہم نے ایک اسکل ڈیولپمنٹ تشکیل دیا اور این ای ڈی یونیورسٹی کو کہا ہے کہ اپنا کیمپس قائم کریں جسکو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے گا۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ہمارا اپنا ذاتی خیال ہے کہ آگے ہماری حکومت رہی تو تھر جس طرح ترقی کررہا ہییہ مستقبل میں کراچی کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ مقامی آبادی کے غربا کو 100 یونٹس استعمال کرنے پرکوئی بل نہیں دیا جاتا جسکی رقم ہم حیسکو کو ہر ماہ دیتے ہیں۔ وزیراعلی سندھ سے پوچھے گئے ایک سوال پر انھوں نے جواب دیا کہ 2001 میں مشرف صاحب ایک قانون لائے جس کا مقصد یہ تھا کہ ضلعی انتظامیہ کے ذریعے فیڈریشن کا کنرول رکھا جائے اور صوبائی لیول کو ختم کردیا جائے۔

کراچی میں تمام آبادیوں کو دیکھ لیں جس میں روڈ کمرشل کردینا، بغیر پانی و دیگر سہولیات کے بڑی بڑی عمارتیں بنا دینا یہ سب اس دور میں ہوتا رہا ہے۔ اس وقت سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا یہ مثال دیا جاتا تھا کہ سوک سینٹر کے دفتر کی لفٹ میں 7 گریڈ کا افسر اوپر جاتے جاتے 18 گریڈ کا بن جاتا تھا۔ 2013 میں ہم حکومت میں آئے تو یہ تمام اختیارات ہم نے لیکر دوبارہ صوبائی حکومت کے حوالے کردے اور 2020 کا جو قانون ہے اس میں ہم نے کافی چیزیں دوبارہ واپس لوکل کونسلز کو دی ہیں جس میں(1) 2014 کا ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ایکٹ ہے جسکو ریجنل سطح پر میئر کے حوالے کردیا ہے (2) واٹر بورڈ ادارے کے چیئرمین کو جوائنٹ چیئرمنز میں تبدیل کردیا ہے وہ اس لئے کہ واٹر بورڈ میں اس وقت نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ صوبائی حکومت بھی سرمایہ کاری کررہی ہے۔

ہم چاہتے ہیں واٹر بورڈ کو خود کفیل بناکر نچلی سطح پر منتقل کردیں۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ(3) آئین کا آرٹیکل 140A کہتا ہے کہ مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات ہونے چاہئیں جبکہ مالی اختیارات انکے پاس ہیں اور اپنا بجٹ خود بناتے ہیں۔(4) محکمہ ایکسائیز پراپرٹی ٹیکس وصول کرکے 15 فیصد رکھ کر انکو واپس کرتا تھا جس کو ہم نے بلکل ختم کرکے انکے حوالے کردیا ہے۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ 90 سے 80 فیصد رقم انکو صوبائی حکومت سے جاتی ہے تو لازمی بات ہے پھر پوچھ گچھ تو ہوگی جس طرح ہم سے وفاقی حکومت پوچھتی ہے۔ قانون میں ہے کہ اگر کوئی لوکل کونسل کام صحیح نہیں کررہی تو صوبائی حکومت اپنا میئر وہاں لگاسکتی ہے لیکن ہم نے تاحال ایسا قدم نہیں اٹھایاجبکہ پنجاب حکومت نے اس طرح کا قدم اٹھایا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مشرف دور میں صحت اور تعلیم کا کباڑا کیا گیا جس سے ہم ابھی تک نکل نہیں سکے ہیں۔

اس لئے ہم نے 2013 میں وہ اختیارات لے لئے تا کہ انکی جو اسپتالیں اور ڈسپینسریز کا برا حال ہے انکو سدھارا جاسکے کیوں کہ جب بھی تنقید کی جاتی ہے تو سندھ حکومت پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے حالانکہ یہ اسپتال ہمارے ماتحت بھی نہیں۔ تمام لوکل کونسلز کو یہ اختیار دیا ہے کہ اپنی یونین میں جو بھی پرائمری اسکولز ہیں انکے پرنسپلز اپنی تین ماہ کی رپورٹ متعلقہ یونین کونسل میں جمع کروائیں گے جسکو صوبائی حکومت کو تجاویز دی جاسکیں کہ اسکولز میں کس کس چیز کی ضرورت ہے تاکہ ہم دے سکیں۔

یہ تمام چیزیں نئے ایکٹ کے تحت ہم لائے ہیں۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ اپوزیشن سے رابطہ کیا جائے انھیں خط لکھے ، وزراڑ کو بھیجا اور غیر رسمی گفتگو کے ذریعے مدعو بھی کیا گیا تاکہ یہ اپنی تجاویز ہمارے ساتھ شیئر کریں لیکن افسوس یہ صرف ٹی وی پر اپنا بیان رکارڈ کراتے ہیں باقی عملی کام کچھ نہیں ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ قانون ہم نے جلدی پاس کیا اسکی ایک وجہ تھی کہ میں نے بطور رکن سی سی آئی اجلاس میں مردم شماری پر اعتراض ڈالا ۔

سی سی آئی کی تاریخ میں یہ پہلا فیصلہ خلاف ہوا ہے۔ جوائنٹ پارلیامنٹ سیشن کیلئے اپریل 2021 میں دو بار رمائنڈرز بھیجے کہ اجلاس بلایا جائے جس میں عوام کو صحیح بات بتائی جاسکے لیکن 17 نومبر کو اپنی مرضی سے اجلاس بلایا گیا لیکن ہمارے پرپوزل کو رد کیا گیا۔21 دسمبر کو الیکشن کمیشن سے خط موصول ہوا کہ ہم حلقہ بندی شروع کر رہے ہیں۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ اگر پرانے اعدا و شمار کے مطابق حلقہ بندی ہوتی ہے تو جہاں 100 ہے وہاں 200 ہونی چاہئے جسکو ہم برداشت نہیں کر پاتے اس لئے کہ مزید لیول بڑھانا پڑتا۔

یہی ایک وجہ تھی جس پر ہم نے اپنا بلدیاتی قانون جلدی میں پاس کروایاا ور کسی کمیٹی میں نہیں بھیجا۔ جس پر گورنر سندھ نے اعتراض اٹھایا جس پر کچھ ترمیم کے بعد دوبارہ پاس کروایا اور یہ تمام صورتحال اسمبلی میں بتا چکا ہوں۔ وزیراعلی سندھ نے شکوہ لہجے میں بتایا گیا کہ پنجاب کا بلدیاتی قانون آرڈیننس کے ذریعے پاس کیا گیا اور اسمبلی میں آیا تک نہیں جبکہ اسلام آباد کا قانون بھی آرڈیننس کے زریعے لایا گیا اور قومی اسمبلی تک نہیں لایا گیا۔

وہاں تو کوئی بھی اعتراض نہیں ہوا کہ جلدی میں قانون کو پاس کردیا گیا۔ خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی قانون سے متعلق ایک نرالی منطق پیش کی گئی کہ وہاں کی ہائی کورٹ نے نان پارٹی بیسڈ انتخابات کرانے پر قانون کے خلاف فیصلہ کیا جسکو کے پی کے حکومت سپریم کورٹ لے گئی ہے ابھی وہ فیصلہ آنا ہے ۔ قانون کہتا ہے کہ نان پارٹی بیسڈ الیکشن ہو جبکہ ہائیکورٹ کے فیصلہ پر قانون کو تبدیل کئے بغیر انھوں نے پارٹی بیسڈ الیکشن کرائے ۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ان تمام مسائل کو کسی کا خیال نہیں جاتا ۔ جماعت اسلامی کے احتجاج میں ناصر شاہ صاحب کو بھیجا ہے کہ انکی تجاویز لے آئیں جو وہ چاہتے ہیں بات تو کریں لیکن انکو بات کرنی ہی نہیں ہے۔ بہرحال ہم نے پوری کوشش کی کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے ۔