اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اکتوبر2022ء)
سپریم کورٹ آف
پاکستان نے
شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر ملزمان کو بری کردیا۔منگل کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی
سماعت کی۔ملزم کے وکیل
لطیف کھوسہ نے کہا کہ فریقین کا پہلے ہی راضی نامہ ہوچکا ہے اور ملزمان کا دہشت پھیلانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ
قتل کے واقعہ کو دہشت گردی کا رنگ دیا گیا
۔عدالت نے وکیل کے دلائل سننے کے بعد مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج تالپور سمیت دیگر ملزمان کو بری کردیا۔عدالتی فیصلے کے بعد ملزمان کے وکیل
لطیف کھوسہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقتول کے ورثا کے ساتھ صلح ہو گئی تھی اور مدعی اور لڑکے کے والد اورنگزیب انہوں نے بیان دیا تھا کہ میں دل سے اور بغیر کسی جبر کے معاف کرتا ہوں جبکہ ان کی بیگم بھی گواہ تھی۔
(جاری ہے)
انہوںنے کہاکہ سب ہی نے کہا کہ ہماری صلح ہو گئی ہے لہٰذا ملزم کو بری کیا جائے کیونکہ اس میں کوئی عذر نہیں اور اسلام بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ معاملات کو الجھانے کے بجائے اسے خوشگوار انداز میں صلح کر لی جائے۔انہوں نے کہا کہ
سپریم کورٹ نے تمام ملزمان کو انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں بری کیا ہے، مقتول کے ورثا کے راضی نامے کو ہائی
کورٹ نے تسلیم کر لیا تھا اور 302 سے
استثنیٰ دیا تھا۔
ملزم کے وکیل نے کہا کہ 7-اے ٹی اے میں دہشت گردی پھیلانے کا مواد ہونا چاہیے، اس میں دہشت گردی پھیلانے کا کوئی عنصر تھا ہی نہیں، آدھی رات کو بچوں کا جھگڑا ہوتا ہے اور اس جھگڑے کے شاخسانے میں شاہ زیب کو دو گولیاں لگتی ہیں لہٰذا اس میں کوئی دہشت گردی کا عنصر نہیں تھا۔انہوں نے بتایا کہ
سپریم کورٹ نے کہا کہ 7-اے ٹی اے میں چونکہ دفع چھ کے کسی بھی مندرجات کا اطلاق نہیں ہوتا اس لیے اس دفع کے تحت انسداد دہشت گردی کی سزا کو
سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ انصاف کا بول بالا ہوا ہے، صلح اور امن آشتی ہونی چاہیے، دونوں خاندانوں کے بہت اچھے تعلقات ہو گئے ہیں۔ملزم شاہ رخ جتوئی کی جانب سے فتح کا نشان بنانے کے حوالے سے ملزم کے وکیل نے کہا کہ بچہ اس وقت 18سال کا تھا اور شاہ رخ نے
سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ وکٹری کا نشان بنانا
میرا بچپنا تھا اور
میرا خیال ہے کہ اگر 17-19سال کی عمر کے بچے اس طرح کی حرکت کر جائیں تو انہیں اصلاح کا موقع دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سچ کا ساتھ دیں، آپ لوگ
سوشل میڈیا پر مہم چلا کر جرم ثابت ہونے اور فیصلے سے پہلے اس کا ٹرائل کر کے داغدار اور مجرم ثابت کردیتے ہیں۔یاد رہے کہ 20 سالہ نوجوان شاہ زیب کو دسمبر 2012 میں
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں
فائرنگ کرکے
قتل کردیا گیا تھا۔اس وقت کے چیف جسٹس
سپریم کورٹ آف
پاکستان جسٹس
افتخار محمد چوہدری نے مقدمے کا از خود نوٹس لیا تھا جس کے بعد
پولیس نے مجرموں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی
عدالت میں مقدمہ چلایا تھا۔
بعد ازاں انسداد دہشتگردی کی
عدالت نے 30 جون 2013 کو شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ سجاد تالپور اور غلام مرتضی لاشاری عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔مجرموں نے 2013 میں ہی سزا کے خلاف
سندھ ہائی
کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
عدالت کی جانب سے سزائے موت سنانے کے چند ماہ بعد شاہ زیب کے والدین نے معافی نامہ جاری کردیا تھا جس کو
سندھ ہائی
کورٹ نے منظور کیا تھا۔
شاہ زیب کے والدین کی جانب سے معافی نامہ جاری کرنے کے بعد سزائے موت دہشت گردی کی دفعات کے باعث برقرار تھی تاہم 11 نومبر 2017 کو
سندھ ہائی
کورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ تفتیش کا حکم جاری کردیا تھا۔30 دسمبر کو سیشن
کورٹ نے شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر مجرموں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔یاد رہے کہ 26 دسمبر 2017 کو
وکلا، انسانی حقوق کے کارکن
جبران ناصر اور
کراچی کے دیگر شہریوں نے
سندھ ہائی
کورٹ کی جانب سے
شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کے مقدمے کو سیشن
عدالت بھیجنے کے فیصلے کے خلاف
سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
سپریم
کورٹ نے یکم فروری 2018 کو
شاہ زیب قتل کیس میں متفرق درخواستوں کی
سماعت کے دوران
سندھ ہائی
کورٹ کی جانب سے شاہ رخ جتوئی سمیت 3 مجرموں کو دی جانے والی ضمانت اور مذکورہ کیس دوبارہ سول
عدالت میں چلانے کا فیصلہ معطل کرکے مجرموں کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا
۔سپریم کورٹ نے
سندھ ہائی
کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے
پولیس کو مجرموں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے تینوں مجرموں کے خلاف
سندھ ہائی
کورٹ کا فیصلہ آنے تک مجرموں کے نام
ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم بھی دیا تھا۔بعد ازاں
سپریم کورٹ کے حکم پر
سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس نذر اکبر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے مجرموں کے خلاف کیس کی
سماعت کی تھی اور 11 مارچ کو فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔13 مئی 2019 کو محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے
عدالت عالیہ نے 2 مجرموں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا جبکہ دیگر 2 مجرموں کی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔عمر قید کی سزا کے خلاف شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان نے
سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی