نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 ستمبر2023ء) نگراں
وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے
کشمیر کو
پاکستان اور
بھارت کے درمیان امن کی کلید قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی کا دارومدار امن پر ہے،
بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ پرامن اور تعمیری تعلقات کے خواہاں ہیں،
بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد سے گریزاں ہے،
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل
کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنائے،
افغانستان میں امن
پاکستان کے لئے ناگزیر ہے،
پاکستان کی پہلی ترجیح
افغانستان سے اور اندرون ملک تمام دہشت گردی کو روکنا اور اس کا مقابلہ کرنا ہے،ہمیں بلا تفریق تمام دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہئے، ہمیں ریاستی دہشت گردی کی مخالفت کرنے کی بھی ضرورت ہے، اسلامو فوبیا نے نائن الیون کے بعد وبائی شکل اختیار کر لی ہے، باہمی احترام، مذہبی علامات، صحیفوں اور مقدس ہستیوں کے تقدس کو یقینی بنایا جائے، سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں اضافہ سے اس کی ساکھ اور قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔
(جاری ہے)
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو
اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی کے 78ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وزیراعظم نے
مسئلہ کشمیر، موسمیاتی تبدیلی، اسلاموفوبیا،
فلسطین، افغانستان، پاکستان کے
معاشی استحکام ،
اقوام متحدہ اصلاحات سمیت علاقائی اور بین الاقوامی امور کا جامع انداز میں احاطہ کیا
۔وزیراعظم نے علاقائی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ترقی کا دارومدار امن پر ہے،
پاکستان معاشی طور پر
دنیا کے سب سے کم مربوط خطوں میں واقع ہے،
پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خطے مل کر ترقی کرتے ہیں، اس لئے
پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ پرامن اور تعمیری تعلقات کا خواہاں ہے۔
انہوں نے تنازعہ
کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر
پاکستان اور
بھارت کے درمیان امن کی کلید ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و
کشمیر کا تنازعہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے،
بھارت نے سلامتی کونسل کی ان قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز کیا ہے جوجموں و
کشمیر کے حتمی تصفیہ کا فیصلہ اس کے عوام
اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے کرنے کا متقاضی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ
ہندوستان نے 5 اگست 2019 سے مقبوضہ جموں و
کشمیر میں اپنے غیر قانونی تسلط کو برقرار رکھنے کیلئے 9 لاکھ فوجی تعینات کئے ہیں، اس مقصد کے لئے
بھارت نے توسیع شدہ لاک ڈاؤن اور کرفیو نافذ کر رکھا ہے،
کشمیر کے تمام حقیقی لیڈروں کو جیلوں میں ڈال دیا ،پرامن
احتجاج کو پرتشدد طریقے سے دبانا، جعلی "مقابلوں" اور نام نہاد "گھیراؤ اور تلاشی کی کارروائیوں" میں معصوم کشمیریوں کے ماورائے
عدالت قتل کا سہارا لیا گیا اور اجتماعی سزائیں دی گئیں، پورے کے پورے دیہات کو تباہ کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ
مقبوضہ کشمیر تک رسائی، جس کا مطالبہ
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق اور ایک درجن سے زائد خصوصی نمائندوں نے کیا تھا، کو نئی
دہلی نے مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے
اقوام متحدہ پر زور دیا کہ
اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل کی
کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہئے،
اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ فار
انڈیا اینڈ
پاکستان کو مزید تقویت دی جانی چاہئے۔
عالمی طاقتیں نئی
دہلی کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ
پاکستان کی جانب سے سٹرٹیجک اور روایتی ہتھیاروں پر باہمی تحمل کی پیشکش کو قبول کرے
۔وزیراعظم نے کہا کہ جنرل
اسمبلی کا اجلاس جدید تاریخ کے ایک کشیدہ اور اہم لمحات میں ہو رہا ہے جب یوکرین اور
دنیا بھر میں 50 مختلف مقامات پر تنازعات ابھر کر سامنے آئے ہیں، عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے، ہم نئے اور پرانے فوجی اور سیاسی بلاکس دیکھتے ہیں، جغرافیائی سیاست دوبارہ سر اٹھا رہی ہے جبکہ
دنیا میں جیو اکنامکس کو فوقیت حاصل ہونی چاہئے ۔
انہوں نے کہا کہ
دنیا دوسری سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی، بنی نوع انسان کو بہت سے بڑے چیلنجز درپیش ہیں جو عالمی تعاون اور اجتماعی اقدامات کے متقاضی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ
دنیا کے
معاشی امکانات پر بھی تاریکی کے سائے نظر آتے ہیں، عالمی ترقی سست روی کا شکار ہے، سود کی بلند ترین شرح کساد بازاری کا باعث بن سکتی ہے، یکے بعد دیگرے کوویڈ، مختلف تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی نے بہت سے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو تباہ کر دیا ہے، بہت سے ممالک بمشکل دیوالیہ ہونے سے بچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، غربت اور بھوک میں اضافہ ہوا ہے جس نے تین دہائیوں کے ترقیاتی ثمرات کو متاثر کیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ گذشتہ روز ہونے والی ایس ڈی جیز سمٹ میں پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے دور رس وعدے کئے گئے، ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے، 59 ممالک جو قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں ان کے مسائل کے حل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ
پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کوپ۔28 میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ماحولیاتی تبدیلی کیلئے 100 ارب
ڈالر کی فراہمی اور ترقی پذیر ممالک کیلئے نصف مالیاتی وسائل مختص کرنے، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کے ازالہ کیلئے فنڈز کی فراہمی اور فنڈز کے انتظامات کو فعال بنانے اور گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے ہدف کیلئے کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کے اہداف کے حوالے سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کا منتظر ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ
پاکستان کو درپیش فوڈ فیول اور فنانس چیلنجز کوویڈ ، تنازعات اور ترقی پذیر ممالک پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے ہے،
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ گزشتہ
موسم گرما کے شدید
سیلاب نے ہمارے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈبو دیا، 1700 افراد
ہلاک اور 80 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے، اہم انفراسٹرکچر تباہ اور
پاکستان کی معیشت کو 30 بلین
ڈالر سے زیادہ کا
نقصان پہنچا۔
وزیراعظم نے کہا کہ
پاکستان گزشتہ جنوری میں جنیوا کانفرنس میں بحالی اور تعمیر نو کے لئے فور آر ایف پلان کے تحت 10.5 ارب
ڈالر سے زائد کے وعدوں کو سراہتا ہے ، فور آر ایف منصوبے پر عملدرآمد اور فنڈز کے بروقت اجراء کو یقینی بنانے کیلئے مخصوص منصوبے پیش کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہمارے ترقیاتی شراکت دار بحالی کے منصوبے کیلئے 13 ارب
ڈالر کے اجراء کو یقینی بنائیں گے۔
وزیراعظم نے
پاکستان کی
معاشی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت تیزی سے
معاشی بحالی کے لئے پرعزم ہے، ہم اپنے
زرمبادلہ کے ذخائر اور اپنی کرنسی کو مستحکم کریں گے۔ ملکی آمدنی کو بڑھائیں گے اور ملکی اور بیرونی سرمایہ کاری لائیں گے، اس سلسلہ میں ایک خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی
ایف سی ) قائم کی گئی ہے جس کے تحت زراعت، کان کنی، توانائی اور آئی ٹی سمیت 28 شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ترقیاتی شراکت داروں کے تعاون سے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ
پاکستان طویل مدتی جغرافیائی و اقتصادی ترقی کیلئے کوشاں ہے،
ریلوے، بنیادی ڈھانچے اور مینوفیکچرنگ کے منصوبوں میں
چین پاکستان
اقتصادی راہداری (سی پیک) کا دوسرا مرحلہ شروع کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ
پاکستان وسطی ایشیا کے ساتھ کنکٹیویٹی منصوبے جلد شروع کرنے کا خواہاں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ
افغانستان میں امن
پاکستان کے لئے ناگزیر ہے، پاکستان
افغانستان میں بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی برادری کے تحفظات میں شریک ہے، اس کے باوجود ہم متاثرہ افغان آبادی کے لئے انسانی امداد جاری رکھنے کی حمایت کرتے ہیں جس میں لڑکیاں اور خواتین زد پذیر ہیں جبکہ
پاکستان افغان معیشت کی بحالی اور وسطی ایشیا کے ساتھ رابطہ کاری کے منصوبوں پر عملدرآمد کا خواہاں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ
پاکستان کی پہلی ترجیح
افغانستان سے اور
افغانستان کے اندر ہر قسم کی دہشت گردی کو روکنا اور اس کا سدباب کرنا ہے،
پاکستان ٹی ٹی پی،
داعش اور
افغانستان سے فعال دیگر گروپوں کی جانب سے
پاکستان کے خلاف سرحد پار
دہشت گرد حملوں کی مذمت کرتا ہے، ہم ان حملوں کو روکنے کے لئے
کابل سے حمایت اور تعاون کے خواہاں ہیں اور اس بیرونی حوصلہ افزائی سے ہونے والی دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ضروری اقدامات بھی کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ
پاکستان شام اور
یمن میں تنازعات کے خاتمے کی جانب پیشرفت کا خیرمقدم کرتا ہے بالخصوص ہم مملکت
سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ
ایران کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا پرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے
فلسطین کا المیہ جاری ہے جس میں اسرائیلی فوجی چھاپوں، فضائی حملوں ، بستیوں کی توسیع اور فلسطینیوں کی بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ دو ریاستی حل اور جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق ایک قابل عمل اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو
۔وزیراعظم نے کہا کہ
اقوام متحدہ کی امن
فوج کا کردار کامیاب رہا ہے، 6 دہائیوں سے زائد عرصے میں
پاکستان نے
دنیا بھر میں 47 مشنز میں 2 لاکھ 30 ہزا ر امن فوجی فراہم کئے ہیں، آج
اقوام متحدہ کے امن دستوں کو خاص طور پر جرائم پیشہ اور
دہشت گرد گروہوں کے پیچیدہ اور گھبیر چیلنجوں کا سامنا ہے، ہمیں امن دستوں کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان
اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا تاکہ ضرورت پڑنے پر
اقوام متحدہ اور بین الاقوامی افواج کے اقدامات کو نافذ کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں دائیں بازوں کے انتہا پسندوں اور فاشسٹ گروپوں سے بڑھتے ہوئے خطرے سمیت بلا تفریق تمام دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہو گا جیسا کہ ہندوتوا سے متاثر انتہا پسند
ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کی نسل کشی کی
دھمکی دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ریاستی دہشت گردی کی مخالفت،غربت، ناانصافی اور غیر ملکی تسلط جیسی دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کا خاتمہ کرنا ہو گا اور حقیقی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے الگ کرنا ہو گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ
پاکستان نے عالمی سطح پر انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کے تمام چاروں ستونوں پر متوازن عملدرآمد کیلئے جنرل
اسمبلی کی کمیٹی کے قیام کی تجویز پیش کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ تہذیبوں کے درمیان تعاون، افہام و تفہیم، تبادلے اور نظریات کی ترکیب پر مبنی ہماری ترقی آج خطرے میں پڑی ہوئی ہے، تہذیبوں کے درمیان تصادم کی حمایت کرنے والے بیانیہ نے انسانی ترقی کو کافی
نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامو فوبیا سمیت اس طرح کے خیالات نے انتہا پسندی، نفرت اور مذہبی عدم برداشت کو جنم دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک پوشیدہ خطرہ ہے جو ہزاروں سال کی ترقی کو
نقصان پہنچاتا ہے، ہمیں اپنے تنوع اور زندگی کے مختلف طریقوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، باہمی احترام، مذہبی علامات، صحیفوں اور مقدس ہستیوں کے تقدس کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامو فوبیا ایک پرانا رجحان ہے تاہم نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اس نے وبائی شکل اختیار کر لی ہے اور اس سلسلہ میں اسلام کے مقدس مقامات اور علامتوں پر حملےکئے جا رہے ہیں اور قرآن پاک کو سرعام نذرآتش کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پچھلے سال جنرل
اسمبلی نے او آئی سی کی جانب سے
پاکستان کی طرف سے تجویز کردہ ایک
قرارداد منظور کی جس میں 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ رواں سال کے اوائل میں انسانی حقوق کونسل نے
پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی او آئی سی کی ایک
قرارداد منظور کی تھی جس میں ریاستوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ قرآن پاک کو جلانے اور اسی طرح کی اشتعال انگیزیوں کو غیر قانونی قرار دیں، ہم ڈنمارک کی طرف سے شروع کی گئی قانون سازی اور سویڈن کی طرف سے معاملہ پر غور کا خیرمقدم کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ
پاکستان اور او آئی سی ممالک اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لئے مزید اقدامات تجویز کریں گے جس میں خصوصی ایلچی کی تقرری، اسلامو فوبیا ڈیٹا سینٹر کی تشکیل، متاثرین کو قانونی مدد اور اسلامو فوبیا کے جرائم کی سزا کے لئے احتسابی عمل شامل ہے
۔وزیراعظم نے کہا کہ آج
دنیا کو جن گھمبیر عالمی اور علاقائی چیلنجز کا سامنا ہے ان سے
اقوام متحدہ کے فریم ورک کے اندر موثر کثیرالجہتی اقدامات کے ذریعے بہترین طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے تاہم عالمی طاقتوں کےدرمیان سٹرٹیجک مخالفت ،کشیدگی اور یکطرفہ پالیسیوں کی وجہ سے کثیرالجہتی اقدامات میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ
پاکستان کثیرالجہتی اداروں کو مضبوط بنانے اور عالمی تعاون کو بڑھانے کے لئے فعال کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ
پاکستان ’’سمٹ آف دی فیوچر اور پیکٹ فار دی فیوچر ‘‘کے دائرہ
کار اور عوامل پر مسلسل بات چیت کا خواہاں ہے جو پہلے سے ہونے والی مشاورت میں پیدا شدہ اتفاق رائے پر استوار ہو۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کی اصلاحات کے بارے میں بین الحکومتی
مذاکرات جیسے عنصر کو سربراہ اجلاس کی تیاری کے عمل کو موجودہ مذاکراتی عمل میں باعث خلل نہیں ہونا چاہئے ۔
وزیراعظم نے کہا کہ
پاکستان اقوام عالم میں ’’اشرافیہ ‘‘کے نظام پر یقین نہیں رکھتا، عالمی امن و خوشحالی کے مفاد میں
اقوام متحدہ چارٹر کے مساوات اور خودمختاری کے اصولوں کو برقرار رکھا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ
پاکستان اس امر پر یقین رکھتا ہے کہ سلامتی کونسل میں اضافی مستقل ارکان شامل کرنے سے اس کی ساکھ اور قانونی حیثیت کو مزید
نقصان پہنچے گا، زیادہ سے زیادہ ممکنہ معاہدہ ’’یونائٹنگ فار کنسنسس گروپ ‘‘کی کونسل کی توسیع کی تجویز کی بنیاد پر حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ محدود تعداد میں طویل مدتی نشستوں کی فراہمی کے ساتھ صرف غیر مستقل زمرے میں ہو۔
وزیراعظم نے کہا کہ
پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ حال اور مستقبل میں امن و خوشحالی کی تعمیر، تحفظ اور فروغ کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ بڑی طاقتوں کی مخاصمت اور کشیدگی کو کم کیا جائے،
اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مسلسل عملدرآمد کیا جائے، تنازعات کی بنیادی وجوہات کو ختم کیا جائے اور طاقت کے استعمال نہ کرنے کے اصولوں کا احترام کیا جائے جبکہ خود ارادیت، خودمختاری اور علاقائی سالمیت، ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ
پاکستان ایک نئے ،منصفانہ اور پرامن عالمی نظام کے ان اہم عوامل پر عملدرآمد کیلئے تمام رکن ممالک کے ساتھ مستعدی اور فعال طور پر کام کرے گا۔