12 اکتوبر 1999 ء پاکستان کی تاریخ کا غیرمعمولی دن

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 12 اکتوبر 2023 20:00

12 اکتوبر 1999 ء پاکستان کی تاریخ کا غیرمعمولی دن

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اکتوبر 2023ء) سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی وطن واپسی ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب نہ جنرل مشرف زندہ ہیں اور نہ ہی ملک میں انکی مخالف حکومت قائم ہے مگر ان کے استقبال کے لیے ممکنہ اقدامات کے بارے میں بارے میں غیر یقینی پائی جاتی ہے۔

بارہ اکتوبر 1999 ء وہ دن جب ہوا میں پرواز کرتے طیارے میں سوار ملک کے آرمی چیف کے حکم پر دو تہائی اکثریت رکھنے والے وزیر اعظم کو اقتدار سے بے دخل کرکے جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دیا گیا تھا۔

دوست ممالک کے رابطوں کے بعد سابق وزیراعظم نوازشریف اوران کے خاندان کو اس شرط پر سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کی سیاست میں دس سال تک کوئی کردار ادا نہ کرسکیں گے۔

(جاری ہے)

کل اورآج میں کیا کچھ بدل گیا؟

آج 12 اکتوبر 2023 ء ہے، سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف وطن واپسی کے لیے لندن سے روانہ ہو چکے ہیں۔ ملک میں امن امان کی مخدوش صورتحال میں مسلم لیگ ن کو پر ہجوم جلسے اور جلوسوں سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو جب جلاوطنی ختم کر کے لندن سے 18 اکتوبر 2007 ء کو کراچی پہنچی تھیں تو انکے قافلے پر بم حملہ ہوا، متعدد لوگ ہلاک ہوئے، مگر بے نظیر بھٹو اس جان لیوا حملے میں محفوظ رہیں، مگر ٹھیک دو مہینے بعد لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر ایک دھماکے میں ھلاک ھو گئ تھیں۔

ابتدائی طور پر پیپلز پارٹی نے جنرل پرویز مشرف کو بےنظیر کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ مشرف کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد بھی ، پیپلز پارٹی نے ، بے نظیر کے قاتلوں کی گرفتاری میں کوئی دلچسپی نہ لی۔

ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا واضح پیغام

سابق صدر پرویز مشرف مرحوم کو عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے باوجود ان کی بیرون ملک منتقلی اورخودساختہ جلاوطنی کے دوران فوج کا بھرپور سپورٹ حاصل رہا اورپھر ان کے دبئی میں انتقال کے بعد ان کے جسد خاکی کو وطن لایا گیا اورپورے سرکاری اعزاز کے ساتھ انہیں سپرد خاک کیا گیا۔

ان کے جنارے میں جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سمیت دیگرسابق فوجی افسران اورحاضر سروس جرنیلوں اورافسران کی بڑی تعداد شریک تھی۔ آرمی چیف مصروفیت کی بنا پرشریک نہ ہوئے تاہم جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحرشمشاد کی شرکت نے واضح پیغام دیا کہ فوج اپنے کسی سابق سربراہ کا سویلین کے ہاتھوں کسی قسم کا احتساب قبول نہیں کرے گی۔

ملکی سیاست میں دوست ممالک کا کردار

نوازشریف کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وطن واپسی کے لیے ہری جھنڈی دکھائی جاچکی ہے۔

گوکہ افواج پاکستان بارہا اس بات کا اظہارکرچکی ہے کہ اس کا ملکی اندرونی سیاست میں کوئی کردارنہیں لیکن ہر گزرتے دن یہ تاثر مزید گہرا ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان میں سیاست پر ہنوز فوج کا کنٹرول ہے۔ ملک میں نگران حکومت قائم ہے اوراس کے لیے وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا انتخاب بلوچستان کی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے کیا گیا ہے۔ اس پارٹی پراسٹیبلشمنٹ کی گہری چھاپ لگی ہوئی ہے۔

پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کا بھی کردارنظر آتا ہے۔ آج بھی نوازشریف کی وطن واپسی میں چند دوست ملکوں کے کردار کی بات کی جارہی ہے۔

اختتام دوریوں پر

تحریک انصاف جو اس وقت خاصے مشکل دورسے گزر رہی ہے کچھ ماہ قبل تک اس کی حکومت تھی اوراس کے دورحکومت میں سول اورملٹری تعلقات کو مثالی قراردیا جاتا تھا تاہم پھر ایک تعیناتی دونوں میں دوریوں کا سبب بن گئی۔

ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پرعمران خان نے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی تجویز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اوریہاں سے سول اورملٹری تعلقات میں بگاڑ کا آغاز ہوا۔ ایک پیج پر ہونے والوں کے درمیان کبھی نہ عبورہونے والے فاصلے پیدا ہو گئے۔ گویا فوج نے سیاستدانوں کے لیے اب بھی ایک نادیدہ ریڈ لائن کھینچ رکھی ہے جسے کراس کرنے والوں کے اقتدارکے ایوانوں سے جیل کی سلاخوں تک پہنچانے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔

موجودہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار

موجودہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اگربات کریں توملکی تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کی اورسیاست میں فوج کے کسی کردارکو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فوج سیاست میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ تاہم ہر گزرتے دن کے ساتھ فوج کے سیاسی کردار کے تانے بانے ملتے ہیں اورحالیہ واقعات پر نظرڈالیں تو پی ٹی آئی کے لاپتہ رہنماؤں کی بازیابی اورپریس کانفرنسز اس کی ایک کڑی نظر آتی ہے۔

صورتحال اتنی واضح ہے کہ عدالتوں میں پی ٹی آئی رہنماؤں کو پریس کانفرنس کرنے کے مشورے تک دیے جاتے رہے ہیں۔

سیاستدانوں کو سگنل مل گیا ہے

کچھ سیاستدانوں نے آنے والے وقت کے حوالے سے ابھی سے اپنے خدشات کا اظہارکرنا شروع کردیا ہے۔ کہیں جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے بل پاس کرنے پرمعافی مانگی جارہی ہے تو کہیں برملا کہا جارہاہے کہ آج اگر تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ یہ ہورہا ہے تو کل ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوگا۔

تاہم سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتیں اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے پرآمادہ ہیں اب چاہے وہ بلوچستان کی باپ پارٹی ہو ،سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی کی دعویدارایم کیوایم ہو، نومولود استحکام پاکستان پارٹی ہویا تجربہ کارمسلم لیگ ن، ہر سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پرسوار ہوکر اقتدارکی مسند پر براجمان ہونے کی خواہشمند دکھائی دیتی ہے۔

نوازشریف کی ایک بارپھر واپسی

اس سارے سیاسی منظر نامے میں نوازشریف کی ایک بارپھر واپسی بہت سے سوال اٹھارہی ہے۔ کیا نوازشریف احتساب کے اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں ؟ کیا واقعی انہوں نے سب کچھ اللہ پرچھوڑ دیا ہے؟ کیا انہیں پیغام دیا جاچکا ہے کہ فوج اپنے کسی جنرل کو بھی سویلین احتساب کے لیے پیش نہیں کرے گی ؟ کیا چوبیس سال بعد بھی کچھ نہیں بدلا ؟ کیا چند چہروں کے علاوہ کہانی آج بھی وہی ہے؟ اس پرمجھے فیض صاحب کا ایک جملہ یاد آرہا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ گویا یہ ملک کیسے چلے گا یہ مسئلہ نہیں بلکہ ایسا ہی نہ چلتا رہے یہ پریشانی کی بات ہے۔