Live Updates

شہباز شریف کی حکومت، پی ڈی ایم ٹو؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 3 مارچ 2024 16:40

شہباز شریف کی حکومت، پی ڈی ایم ٹو؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 مارچ 2024ء) شہباز شریف نے 201 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے حمایت یافتہ رکن قومی اسمبلی عمر ایوب نے 92 ووٹ حاصل کیے۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے فوراﹰ بعد انہیں ان کے بڑے بھائی نواز شریف اور دوسرے اراکین اسمبلی نے بھرپور مبارکباد دی، لیکن مبارکبادوں کی اس گونج کے پیچھے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی گزشتہ حکومت کی وہ خراب کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے جو کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔

نظام میں انقلانی تبدیلیاں لائیں گے، وزیر اعظم شہباز شریف

مبینہ دھاندلی کے خلاف پی ٹی آئی کے ملک گیر مظاہرے

ناقدین کا خیال ہے کہ یہ حکومت بھی عوام کے لیے اتنے ہی مسائل لے کر آئے گی جتنا کہ پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت لے کر آئی تھی اور یہ کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی بھی گزشتہ کے مقابلے میں کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہوگی۔

(جاری ہے)

اسی لیے اسے کئی ناقدین پی ڈی ایم ٹو کا بھی نام دے رہے۔

شہباز شریف کا خطاب

شہباز شریف نے اپنے انتخاب کے بعد ایوان سے خطاب میں اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے لیے تعریفوں کے پل باندھے اور دعویٰ کیا کہ نواز شریف نے پاکستان کی ترقی کے لیے بے لوث خدمت کی اور لوڈشیڈنگ کو ختم کیا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ اپنی نامزدگی کے لیے نواز شریف کے شکر گزار ہیں۔

انہوں نے دوسرے سیاسی رہنماؤں کا بھی تذکرہ کیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں تو آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔

شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کو اس موقع پر ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فوج اور اداروں کے خلاف زہر اگلا، ''اپنی دو صوبائی حکومتوں سے انہوں نے کہا آئی ایم ایف سے متعلق کوئی مدد نہ کی جائے۔

قوم نے نو مئی کا دن بھی دیکھا جب اداروں پر حملے کیے گئے۔‘‘

اس موقع پہ شہباز شریف نے اپنے اتحادیوں بلاول بھٹو زرداری، علیم خان، خالد مقبول اور خالد مگسی کا بھی شکریہ ادا کیا۔

تحریک انصاف کا احتجاج

اس دوران ایوان میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین قومی اسمبلی نے، جو اب سنی اتحاد کونسل کا حصہ ہیں، ایوان میں خوب شور شرابہ کیا، جس کی وجہ سے ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرتا دکھائی دیا۔

شہباز شریف کی تقریر کئی مواقع پہ ناقابل سماعت رہی اور وہ بلند آواز میں اپنے نکات پیش کرتے رہے۔

پی ڈی ایم ٹو؟

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت بھی پی ڈی ایم کی پچھلی حکومت کی طرح عوامی مسائل میں اضافے کا موجب بنے گی۔ سابق رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے شہباز حکومت کو گزشتہ دور کی طرح اس دفعہ بھی سخت اقدامات کرنا پڑیں گے، ''اور ان سخت اقدامات کی وجہ سے مہنگائی، بے روزگاری اور عوامی مسائل میں اضافہ ہوگا۔

اسی لیے یہ پی ڈی ایم حکومت کا تسلسل کہلائے گی اور اسی لیے اسے پی ڈی ایم ٹو بھی کہا جارہا ہے۔‘‘

اتحادی اور پی ٹی آئی دونوں مسائل پیدا کرسکتے ہیں

کشور زہرہ کے مطابق کیونکہ اب تحریک انصاف کے لوگ اراکین اسمبلی ہیں تو ان کو دبانا اتنا آسان نہیں ہوگا: ''میرا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ اس پورے دور میں اسی طرح شور شرابہ کریں گے جبکہ حکومت کے اتحادی بھی حکومت کے لیے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں جن سے بات چیت کرنے کے لیے شہباز شریف صاحب کو 'فرشتوں‘ کا سہارا لینا پڑے گا، کیونکہ وہ 'فرشتوں‘ کے بغیر چل بھی نہیں سکتے۔

‘‘

پارلیمنٹ گروی ہے

خیال کیا جاتا ہے کہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے بعد پی ڈی ایم کی جو حکومت آئی تھی اس کو اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور یہ کہ اس دوران پارلیمنٹ فیصلہ سازی کرنے میں اتنی با اختیار نہیں تھی اور کئی اہم فیصلے کہیں اور ہوا کرتے تھے۔

کچھ تجزیہ نگاروں کا خدشہ ہے کہ وہ تسلسل اب بھی جاری رہے گا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ سے بالا پہلے ہی ایک کونسل بنا دی گئی ہے جس کو سپر کیبنٹ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پارلیمنٹ کی خود مختاری کو تو پی ڈی ایم نے پہلے ہی گروی رکھ دیا تھا اور ایک ایسی کونسل بنا دی تھی جو زراعت سے لے کے معیشت تک ہر طرح کے فیصلے کر رہی تھی۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا اور پارلیمنٹ کی کوئی خود مختاری نظر نہیں آئے گی۔‘‘

امتیاز عالم کے مطابق یہ سپر کیبنٹ اٹھارویں ترمیم کے بھی خلاف ہے، وفاقی وحدت کے بھی خلاف ہے اور صوبائی خود مختاری کے بھی۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات