مظفرآباد ، عوامی ایکشن کمیٹیوں کی احتجاجی تحریک، عوامی مطالبات اور حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات پر تفصیلی رپورٹ جاری کر دی گئی

پیر 29 اپریل 2024 16:29

ظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اپریل2024ء) آزادجموں کشمیر میں شعور و آگاہی کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ایل ایس ڈی ایف نے گزشتہ ایک سال میں عوامی ایکشن کمیٹیوں کی احتجاجی تحریک، عوامی مطالبات اور حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات پر تفصیلی رپورٹ جاری کر دی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی سربراہی میں قائم اتحادی حکومت کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے 68 فیصد سے زائدشہری سول نافرمانی کرتے ہوئے بجلی کے بلات ادا نہیں کر رہے،مظفرآباد، راولاکوٹ، میرپور، کوٹلی سمیت تمام بڑے شہروں میں ہزاروں افراد نے پہیہ جام، شٹر ڈاون ہڑتالوں سمیت جلسے جلوس کیے،سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا، دھرنوں کو بذریع پولیس اکھاڑا گیا، کئی شہروں میں جاری عوامی دھرنوں کو 8 ماہ سے بھی زائد گزر چکے، حکومت نے جوائینٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے پہلے تاخیر اورپھر غیر سنجیدگی سے مذاکرات کیے۔

(جاری ہے)

گلگت بلتستان کے برابر آٹے پر سبسڈی دینے،مقامی پیداواری لاگت کے مطابق بجلی دینے،حکمران طبقے اورافسر شاہی کی مراعات کم کرنے،بلدیاتی نمائندگان کو اختیارات دینے سمیت اہم مطالبات کے حل کیلئے ٹھوس عملی پیش رفت نہیں کی۔11مئی کو حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹیوں کے پلیٹ فارم سے پہلے سے بڑے اور خطرناک عوامی احتجاج، ریلیاں اور دارلحکومت میں قانون ساز اسمبلی کی طرف عوامی مارچ اور احتجاجی دھرنوں کے شروع ہونے سے حالات مزید کشیدہ ہونے کاقوی امکان ہے۔

تفصیلات کے مطابق شعور و آگاہی کیلئے کام کرنے والی تنظیم ایل ایس ڈی ایف کی رپورٹ کے مطابق آزاد جموں وکشمیر میں عوامی سطح پر احتجاج کا سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب سے نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ شروع کرتے ہوئے آزادکشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد سے دریائے نیلم کا رخ تبدیل کر دیا گیا تھا۔تاہم موجودہ حکومت کے دور میں گزشتہ سال عوامی سطح پر منظم طریقے سے احتجاجی تحریکیں چلائی گئیں جس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی، شہروں، اضلاع، ڈویثرن اور پھر مرکزی سطح پر عوامی ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل کی گئی، مرکزی جوائینٹ عوامی ایکشن کمیٹی جس میں تمام اضلاع سے نمائندے موجود ہیں ان کو حکومت سے مذاکرات سمیت تحریک چلائے جانے بارے اختیارات دیئے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ عوامی احتجاجی تحریک آزادکشمیر میں اس لیے بھی انوکھی ہے کیونکہ گزشتہ 76برس سے آزادکشمیر کے وسائل اور ان پر حق ملکیت کا دعویٰ لے کر اس نوعیت کی عوامی تحریک ماقبل شروع نہیں کی جا سکی جس میں پورا آزادکشمیر عوامی سطح پر منظم کیا گیا ہو۔ اس دوران سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کے دور اقتدار میں آزادکشمیر کے عبوری دستور میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے آزادکشمیریوں کا اپنے وسائل پر حق ملکیت پہلی مرتبہ قانوناًتسلیم کر لیا گیا۔

22ستمبر 2018ئ کو دریا بچاؤ تحریک کی طرف سے جسٹس (ر)منظور حسین گیلانی و دیگر بنام حکومت پاکستان و دیگر کے نام سے ایک رٹ پٹیشن آزاد کشمیر عدالت العالیہ میں دائر کی گئی جس میں نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ اور کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ منگلا ہائیڈروپاور پراجیکٹ اور منگلا ریزنگ ایگریمنٹ کو بھی موضوع بحث بنایا گیا۔مقدمہ کی وکالت معروف قانون دان راجہ امجد علی خان اور ہارون ریاض مغل ایڈووکیٹ کررہے تھے جس کا فیصلہ 15نومبر2019ئ کو مدعیان کے حق میں دے دیا گیا۔

اس کے ساتھ ہی عدالت العالیہ میں محکمہ برقیات کی جانب سے بجلی بلات میں لگائے گئے مختلف ٹیکسز بالخصوص فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز اور نیلم جہلم پراجیکٹ چارجز کو بھی شوکت نواز م میر و دیگر بنام حکومت آزادکشمیر و دیگر رٹ پٹیشن کے ذریعے چیلنج کر دیا گیا جس میں عدالت العالیہ نے محکمہ برقیات کو بلات میں FPA اور NJS لینے سے روک دیا۔ اسی رٹ پٹیشن میں دوران جرح یہ انکشاف ہوا کہ حکومت پاکستان محکمہ برقیات کو 2007ئ سے تاحال 2روپے 59 پیسہ فی یونٹ بجلی فروخت کر رہا ہے جس پر پورے آزادکشمیر میں شدید بے چینی پیدا ہو گئی کیونکہ محکمہ برقیات عوام الناس سے آج تک NEPRAکا متعین کردہ ٹیرف وصول کر رہا تھا جو موجودہ وقت میں 40روپے فی یونٹ کے برابر ہے۔

رپورٹ کے مطابق عوامی ایکشن کمیٹیوں کا وجود8مئی 2023ئ کو راولاکوٹ میں آٹے کے بحران کے نتیجے میں احتجاج شروع ہونے کے بعد عمل میں آیا جسے ابتداً پونچھ عوامی ایکشن کمیٹی کا نام دیا گیا۔ راولاکوٹ سے شروع ہونے والی یہ تحریک اس وقت پورے آزادجموں وکشمیر میں پھیل گئی جب محکمہ برقیات کی جانب سے ماہ اگست کے بجلی بلات تقسیم کیے گئے۔ حکومت نے بجلی بلات میں پروٹیکٹڈ اور ان پروٹیکٹڈ کی دو نئی اصطلاحات متعارف کروا کر لوگوں پر حقیقتاً بجلی کا بم گرا دیا اور 200یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کو جب بجلی کا دگنا بل وصول ہوا تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔

حکومت کے اس اقدام کے خلاف مظفرآباد میں طلبائ نے احتجاج شروع کیا جس میں تاجروں نے بھی اپنا وزن ڈال دیا اور 31اگست 2024کو مظفرآباد بھر میں شٹرڈاؤن اور پہیہ جام کی کال دے دی گئی۔ پونچھ میں ایکشن کمیٹی نے آٹے کے ساتھ ساتھ بجلی کو بھی موضوع بحث بنا لیا اور ساتھ ہی میرپور کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا جہاں دونوں ڈویڑنز میں وکلائ کمیونٹی کی بھرپور سپورٹ کے ساتھ 5ستمبر کو شٹرڈاؤن اور پہیہ جام کی کالیں دے دی گئیں۔

دارلحکومت مظفرآباد میں تاجروں اور طلبائ نے مل کر زندگی کے دیگر شعبوں کے متحرک لوگوں سے رابطے شروع کیے اور اس طرح مختلف سیاسی جماعتوں، تمام کاؤنسلرز، بار ایسوسی ایشنز اور سول سوسائٹی کے دیگر طبقات نے 31اگست کی ہڑتال کو مؤثر بنانے کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔ 31اگست کو مظفرآباد میں قدیمی عزیزچوک میں جلسہ عام منعقد ہوا جس میں حکومت سے بجلی کے ناجائز بلات واپس لینے کی بات کی گئی اور ساتھ ہی مظفرآباد میں نیلم جہلم ہائیڈروالیکٹر ک پراجیکٹ سے جڑے معاملات پر بھی کھل کر اظہار خیال ہوا۔

5ستمبر کو پونچھ اور میرپور ڈویڑنز میں بھی بھرپور شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہوا جس کے بعد تینوں ڈویڑنز کی عوامی ایکشن کمیٹیوں نے مظفرآباد میں 17 ستمبر کو مشترکہ اجلاس منعقد کیا جس میں پورے آزادکشمیر سی200سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ آزادکشمیر کے ہر ضلع میں عوامی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جہاں سے فی ضلع تین افراد کو مرکزی کور کمیٹی میں نامزد کیا جائے گا جنہیں تمام فیصلے کرنے کا اختیار ہو گا۔

اس تمام عوامی اکٹھ کر جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا نام دے دیا گیا۔20ستمبر کے بعد پورے آزادکشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی نے دھرنے دینے کا اعلان کر دیا۔ 28ستمبر کو عوامی ایکشن کمیٹی نے بجلی کے بلات کو کسی جگہ غباروں سے باندھ کر ہوا میں اڑایا، کسی جگہ نذر آتش کیا اور کسی جگہ پانی میں کشتیاں بنا کر بہا دیا۔ اس تمام عمل کی انجام دہی کو سول نافرمانی سے تعبیر کیا گیا اور اس کام کے مرتکب افراد کے خلاف حکومت نے دہشت گردی کی ایف آئی آرز درج کر دیں۔

رپورٹ کے مطابق 30ستمبر کو پورے آزاد کشمیر میں جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ مظفرآباد میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہوئیں اور درجنوں افراد گرفتار کر لیے گئے۔ پونچھ اور میرپور سے بھی مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔ 4اکتوبر کو تمام گرفتار شدگان کو رہا کیا گیا اور 5اکتوبر کو پورے آزادکشمیر میں ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر شدید احتجاج کیا۔

اس حوالے سے سب سے بڑا جلسہ آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ہوا جہاں حکومت کو بجلی کے نرخ کم کرنے اور آٹے کا بحران ختم کرنے کے لیے دس دن کی ڈیڈ لائن دی گئی۔اس دوران حکومت آزادکشمیر نے پاکستان میں بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ آزادکشمیر میں نافذ کرنے سے انکار کر دیا اور ٹیرف کو جون 2023ئ کے بعد منجمد کر دیا گیا۔ حالات کے رخ کو بھانپتے ہوئے حکومت نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف مذاکرات کا ہاتھ بڑھایا اور اس مقصد کے لیے 9وزرائ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جو عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ بیٹھ کر تفصیلی مذاکرات کرے گی۔

وزرائ کے ساتھ مذاکرات کے لیے جموں وکشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے 9افراد منتخب کیے گئے جنہوں نے 3نومبر، 8اور 9 نومبر، 29نومبر، 30نومبر، 7دسمبر، 10دسمبر اور 19دسمبرکو حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کیے۔یل ایس ڈی ایف کی رپورٹ کے مطابق اس دوران 20نومبر اور 19دسمبر کو وزیراعظم آزادکشمیر چودھری انوار الحق کے ساتھ بھی ایکشن کمیٹی کے مذاکرات ہوئے جس میں آٹے اور بجلی سے متعلق معاملات پر نہایت مفصل بحث ہوئی۔

20دسمبر کو کشمیر ہاؤس میں حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ فیصل ممتاز راٹھور اور میاں عبدالوحید نے جموں وکشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران شوکت نواز میر اور عمر نذیر کشمیری و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ حکومت نے ایکشن کمیٹی کے دس مطالبات میں سے 9مطالبات تسلیم کر لیے ہیں جبکہ بجلی کی پیداواری لاگت کے تعین کا معاملہ حکومت پاکستان کے ساتھ زیر بحث ہے جسے جلد حل کر لیا جائے گا۔

اس دوران پاکستان میں عبوری حکومت نے وزیردفاع لیفٹنٹ جنرل انور احمد حیدر کی سربراہی میں ورکنگ گروپس تشکیل دئیے تاکہ بجلی سے متعلق معاملات کو یکسو کیا جاسکے تاہم یہ معاملات تاحال تشنہ تکمیل ہیں۔ 20دسمبر کے تحریری معاہدہ اور پریس کانفرنس کے باوجود جب معاملات جوں کے توں رہے تو جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 5فروری کو ملک بھر میں شٹرڈاؤن، پہیہ جام اور مظاہروں کی کال دے دی۔

4فروری کو ایکشن کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان دوبارہ مذاکرات ہوئے جس میں حکومت نے سروسز کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن ایکشن کمیٹی کے سپرد کیا جس میں ایکشن کمیٹی کے 9مطالبات کو سرکاری طور پر تسلیم کرتے ہوئے 30مارچ تک بجلی سے متعلق معاملات جلد یکسو کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔رپورٹ کے مطابق 30مارچ گزرنے کے بعدمطالبات پورے نہ ہونے پر جموں وکشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے راولاکوٹ اور مابعد دھیرکوٹ میں ایک اجلاس طلب کیا جس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 11مئی کو میرپور اور پونچھ ڈویڑن، ضلع ہٹیاں اور ضلع نیلم سے عوام کا جم غفیر قانون ساز اسمبلی مظفرآباد کی طرف مارچ کرے گا او روہاں مطالبات تسلیم کیے جانے تک دھرنا دیا جائے گا۔