طویل قانونی جنگ کے بعد وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو رہا کر دیا گیا

امریکی معاہدے کے تحت انہیں برطانیہ سے آسٹریلیا روانہ کیا گیا ہے‘معاہدے کے تحت وکی لیکس کے بانی اپنے اوپر عائد ایک الزام میں اعتراف جرم کریں گے مگر ان کی سزا کونہیں سنائی جائے گی اور برطانیہ میں پانچ سال قیدکو سزا تصور کیا جائے گا .برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 25 جون 2024 13:01

طویل قانونی جنگ کے بعد وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو رہا کر دیا گیا
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25 جون۔2024 ) طویل قانونی جنگ کے بعد برطانیہ میں قید وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو رہا کر دیا گیا ہے اور وکی لیکس کے مطابق اب وہ امریکی حکام سے ایک معاہدہ کے تحت اعتراف جرم کریں گے لیکن انہیں سزا نہیں دی جائے گی. برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق 52 سالہ جولین اسانج 2010 اور 2011 میں ہزاروں خفیہ دستاویزات کو شائع کرنے کے الزام میں امریکہ کو مطلوب تھے امریکہ کا سرکاری موقف یہ تھا کہ وکی لیکس فائل کے ذریعے عراق اور افغانستان جنگ کے بارے میں خفیہ معلومات عام کرنے سے کئی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا گیا.

(جاری ہے)

جولین اسانج پانچ سال سے برطانیہ کی ایک جیل میں قید تھے اور امریکہ حوالگی کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہے تھے معاہدے کے تحت جولین اسانج کو امریکہ میں حراست میں نہیں رکھا جائے گا اور برطانیہ میں ان کی قید کو بطور سزا شامل کیا جائے گا محکمہ انصاف کے ایک خط کے مطابق جولین اسانج آسٹریلیا واپس لوٹ جائیں گے. دوسری جانب وکی لیکس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بیان دیا ہے کہ ایک چھوٹے سے سیل میں تقریبا 1900 دن قید کاٹنے کے بعد اسانج برطانیہ کی بیلمارش جیل سے رہا ہو گئے ہیں وکی لیکس نے بتایا ہے کہ اسانج کو برطانیہ کے سٹانسٹیڈ ایئر پورٹ پر لے جا کر رہا کیا گیا جہاں سے وہ ایک جہاز میں بیٹھ کر آسٹریلیا لوٹیں گے.

وکی لیکس کی جانب سے ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے جس میں ایک جینز اور نیلے رنگ کی شرٹ میں ملبوس اسانج کو ایئر پورٹ پر ایک جہاز میں بیٹھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اسانج کی اہلیہ سٹیلا نے بھی” ایکس“ پر ان کے حامیوں کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے کئی سال تک اس موقع کے لیے محنت کی جولین اسانج اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے تحت وکی لیکس کے بانی اپنے اوپر عائد ایک الزام میں اعتراف جرم کریں گے اور امکان ہے کہ 26 جون کو آسٹریلیا کی ناردرن ماریانا آئی لینڈز کی ایک عدالت میں فیصلہ سنایا جائے گا.

یہ جزیرہ آسٹریلیا کے قریب ہی موجود ہے آسٹریلیا کی حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یہ مقدمہ بہت زیادہ طویل ہو چکا تھاجولین اسانج کے وکیل رچرڈ ملر نے امریکی نشریاتی ادارے ”سی بی ایس“ کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر ردعمل دینے سے انکار کیا جولین اسانج اور ان کے وکلا نے ہمیشہ یہ موقف اپنایا ہے کہ ان کے خلاف درج مقدمہ سیاسی وجوہات پر بنایا گیایاد رہے کہ اپریل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ آسٹریلیا کی اس درخواست پر غور کر رہے ہیں کہ اسانج کے خلاف مقدمہ بند کر دیا جائے اگلے ہی ماہ برطانیہ کی ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ اسانج امریکہ حوالگی کے خلاف نئی درخواست دائر کر سکتے ہیں.

اس فیصلے کے بعد اسانج کی اہلیہ سٹیلا نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کو اس شرمناک مقدمے سے دوری اختیار کر لینی چاہیے ا مریکی حکام وکی لیکس کے بانی پر 18 الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کے خواہش مند تھے جن میں سے اکثریت افغانستان اور عراق جنگ کے بارے میں خفیہ امریکی عسکری ریکارڈ اور سفارتی پیغامات کو جاری کرنے پر جاسوسی کے قوانین کے تحت بنے تھے.

جولین اسانج 1971 میں آسٹریلیا کے شہر کوینز لینڈ میں پیدا ہوئے ان پر 1995 میں درجنوں ویب سائٹس کو ہیک کرنے کا جرم ثابت ہوا جس کے بعد انہیںعدالت سے تنبیہ کی گئی اور جرمانہ بھرنا پڑاانہوں نے ماہر تعلیم سولیٹ ڈریفس کے ساتھ مل کر ”انڈر گراﺅنڈ“ نامی ایک کتاب لکھی جو کمپیوٹراستعمال کرنے والوں کی برادری میں انتہائی مقبول ہوئی اسانج 2006 میں وکی لیکس ویب سائٹ کی بنیاد سویڈن میں ڈالی 2010 میں وکی لیکس نے امریکہ کے ایک جنگی ہیلی کاپٹر سے بنائی گئی ویڈیو نشر کی جس میں عراق کے شہر بغداد میں شہریوں کو ہلاک کرتے ہوئے دیکھایا گیا تھا.

وکی لیکس نے ان ہزار ہا دستاویزات کو بھی شائع کیا جو سابقہ امریکی انٹیلیجینس تجزیہ کار چیلسی میننگ نے ان کو فراہم کیں افغانستان میں جنگ سے متعلقہ دستاویزات کے ذریعے یہ راز فاش ہوا کہ کیسے امریکی فوج نے سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا اور یہ واقعات رپورٹ نہ ہو پائے عراق جنگ سے متعلق دستاویزات سے یہ پتا چلا کہ 66 ہزار شہریوں کو ہلاک کیا گیا یہ تعداد اس سے کم ہے جو رپورٹ ہوئی تھی دستاویزات سے ظاہر ہوا کہ عراقی فورسز نے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا.

ان لیکس میں وہ دو لاکھ 50 ہزار پیغامات بھی شامل تھے جو امریکی سفارت کاروں کی جانب سے بھیجے گئے تھے ان سے معلوم ہوا کہ امریکہ اقوام متحدہ کے کلیدی عہدیداروں کے بائیو گرافک اور بائیو میٹرک معلومات جیسا کہ ڈی این اے اور فنگر پرنٹس حاصل کرنا چاہتا تھا امریکی استغاثہ کا موقف ہے کہ جولین اسانج نے ان خفیہ معلومات کو افشا کر کے انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق کیے ہیں تاہم جولین اسانج کا موقف ہے کہ ا نہوں نے صرف امریکی فوج کی زیادتیوں کو آشکار کیا ہے جولین اسانج نے 7 برس تک لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے رکھی تھی ایکواڈور کے سفارت خانے سے نکلنے کے بعد ضمانت کی شرائط کو پورا نہ کرنے کے جرم میں انہیںقید کی سزاسنائی گئی تھی.