!نوشکی آل سپورٹس کو نظر انداز کرنے ، نوشکی سٹی فٹسال گرانڈ کی زبوں حالی اور منشیات کے خلاف فکرے نوتحریک نوجوانان کا احتجاجی ریلی و احتجاجی مظاہرہ

ج*نوشکی ، سپورٹس کو نظر انداز کرنے کے خلاف مظاہرین کا شدید نعرہ بازی

جمعہ 26 جولائی 2024 22:55

نوشکی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 جولائی2024ء) فکرے نو تحریک کی جانب سے آل سپورٹس کو نظر انداز کرنے ، نوشکی سٹی فٹسال کی عدم مرمت اور منشیات کے خلاف صدیق اکبر چوک کے سامنے احتجاجی ریلی نکالی گئی ، مظاہرین ہاتھوں میں پلے کارڈ اور تحریک کے پرچم اٹھا رکھے تھے ۔ احتجاجی ریلی مختلف شاہراہوں سے ہوتا ہوا میر گل خان نصیر چوک احتجاجی مظاہرے کی شکل اختیار کرگئی ، احتجاجی مظاہرے سے فکرے نو تحریک نوجوانان کے چیرمین امیر محمد حسنی اور وائس چیرمین نذیر احمد جمالدینی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کھیلوں کے میدان زبوں حالی کا شکار ہونے کی وجہ سے کھیلوں کو نقصان پہنچ رہی ہے ۔

جس کے باعث موٹر سائیکل ریسنگ اور منشیات کو عروج مل رہی ہے ۔ ہمارا نوجوان نسل تیزی کے ساتھ سماجی برائیوں کی جانب راغب ہورہے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ نوشکی میں آل سپورٹس کو ایک سازش کے تحت دیوار سے لگایا جارہا ہے ۔ سپورٹس مینوں کے ساتھ کوئی خاطر خواہ تعاون نہیں ہورہی ہے ۔ گرانڈز کی مرمت نہیں ہورہی ہے ۔ جسکی واضع مثال واپڈا دفتر کے ساتھ نوشکی سٹی کا فٹسال گرانڈ ہے ۔

جو تبائی اور زبوحالی کا شکار ہے ۔ فٹسال گرانڈ میں ناقص میٹیریل استعمال کیا گیا ۔ فنڈز کرپشن کا شکار ہوگئے ، دو نمبر سامان کے باعث فٹسال گرانڈ کھنڈرات کا شکارہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فٹسال گرانڈ کے مرمت کے لئے فنڈز مختص کیا جائے اور متعلقہ آفسیر کو نوشکی سے ٹرانسفر کیا جائے ۔کیونکہ موجودہ آفیسر کی وجہ سے سپورٹس کو نقصان پہنچ رہی ہے سپورٹس گرانڈ تبائی کا شکار ہورہے ہیں ۔

ہمارا علاقے کا ٹیلنٹ ضائع ہورہی ہے ۔ صوبائی وزیر کھیل اور سیکرٹری سپورٹس فوری اس کا نوٹس لیکر اقدامات کریں ۔ تاکہ نوشکی میں سپورٹس کو بچایا جاسکیں ۔ اور نوجوان نسل کھیلوں کی جانب راغب ہوسکیں ۔ گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر خود فٹبال اسٹیڈیم میں مہمان خاص تھے کیا موصوف نے محسوس نہیں کی کہ گرانڈ کی زبوحالی کا ۔ ہمارے سپورٹس میدان تبائی اور زبو حالی کا شکار ہورہے ہیں ۔

اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ ہم نوجوانوں کے حقوق اور انہیں شعور و آگائی دینے میں اور نہ انصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ۔ 26-07-24/--296 #h# Qسپریم کورٹ کی جانب سے قادیانی مبارک ثانی کیس کے فیصلے کے خلاف احتجاجی ریلی جمعیت علما اسلام ضلع کوئٹہ کے امیر مولانا عبد الرحمن رفیق کی قیادت میں جناح روڈ سے نکالی گئی #/h# 6کوئٹہ (آن لائن)جمعیت علما اسلام ضلع کوئٹہ کے زیر اہتمام سپریم کورٹ کی جانب سے قادیانی مبارک ثانی کیس کے فیصلے کے خلاف احتجاجی ریلی جمعیت علما اسلام ضلع کوئٹہ کے امیر مولانا عبد الرحمن رفیق کی قیادت میں جناح روڈ سے نکالی گئی جو دیگر شاہراہوں سے ہوتے ہوئے پریس کلب پر بڑے احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہوئی ۔

احتجاجی مظاہرے سے جمعیت علما اسلام ضلع کوئٹہ کے امیر مولانا عبد الرحمن رفیق مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا مفتی محمد روزی خان سیکرٹری جنرل حاجی بشیر احمد کاکڑ مولانا خدائے دوست مولانا ولی محمد ترابی حاجی رحمت اللہ کاکڑ حافظ مسعود احمد مولانا عبد الکبیر برشوری محمد حسن شہاب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ ملک کی اساس کو ہلاکر غیر آئینی غیر اسلامی اقدامات سے گریز کرے قادیانیت کے کرم فرماں کے خلاف آگ وخون کا دریا عبور کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وعصمت کی شان کے تحفظ کے لیے ہر حدتک جائیں گے ۔ ، مغرب اور امریکہ کی خوشنودی کے لیے اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک کے نظریات کو تبدیل کرنے والوں کے نام تاریخ میں عبرت کے نشان بن گئے ہیں ۔ قادیانی لابی کو کسی بھی نام پر رعایت دینا متفقہ آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ قادیانی مبارک احمد ثانی کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین سے متصادم اور پاکستان کے اسلامی تشخص پر کاری ضرب ہے ۔

اس فیصلے کی آڑ میں 1973 کے آئین کی متفقہ شقوں کو متنازعہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ تحریف شدہ قرآن پاک کی اشاعت کے فیصلے کو بحال رکھنا قادیانی لابی کی خوشنودی کے سوا کچھ نہیں۔ جمعیت علما اسلام کا ایک کارکن زندہ ہوتے ہوئے کسی مائی کے لال کو یہ جرائت نہیں ہوگی کہ وہ قادیانی لابی کو حیثیت دے سکے۔کیوں کہ وہ نہ صرف ختم نبوت کے غدار ہے بلکہ آئین کے بھی غدار ہے ۔

مقررین نے کہا کہ قادیانیت دراصل مغرب اور انگریز کا ایک جاسوس ٹولہ ہے، جو مسلمان ممالک خصوصا پاکستان کے خفیہ رازوں کو اپنے آقاں تک پہنچاتا رہتا ہے اور آئے روز پاکستان کو مشکلات میں ڈالنے کے لیے تخریب کاروں کا کردار بڑی تن دہی اور چابک دستی سے ادا کرتا اور نبھاتا رہتا ہے۔ یہی قادیانی گروہ ہے جس نے آئینِ پاکستان کو آج تک نہیں مانا، بلکہ ملکی آئین اور دستور کے خلاف ان کا ہر خلیفہ نہ صرف یہ کہ بولتا ہے، بلکہ پاکستان کو خطرات سے دوچار کرنے اور پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں بھی دیتا رہتا ہے، جن کی تقاریر آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جو ان کے گھنانے عزائم کی چیخ چیخ کر شہادت اور گواہی دے رہی ہیں۔

جمعیت علما اسلام کے قائدین نے کہا کہ قادیانی قیامِ پاکستان کی تحریک کے آغاز سے ہی اس کے مخالف رہے۔ ہمیشہ اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ اب بھی گمراہ کن اور کفریہ عقائد کو پھیلانے کے لئے سرگرم ہیں۔ ان کے انہی عقائد کی بدولت ان کو 7 ستمبر 1974 کو کافر قرار دیا گیا تھا اور پھر 1984 میں ان کو قادیانیت آرڈیننس کے تحت اسلامی شعائر اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے بھی روک دیا گیا تھا مگر افسوس کہ پاکستان کے ہر شعبے میں ایسے لوگ پیدا کئے گئے جو اپنے اختیارات کا غیر آئینی استعمال کرکے قادیانی لابی کو سپیس دینے کی کوشش کرکے ملک کی اساس اور بنیاد کا خیال نہیں رکھ رہے ہیں ۔

26-07-24/--297 #h# پولیٹکل فلاسفی ، شراکتی جمہوریت اور پولیٹکل ڈسکورس ایک دوسرے سے جڑے ہوئے وہ تصورات ہیں جو معاشرے میں جمہوری رویوں، سیاسی اداروں اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے طریقوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ #/h# کوئٹہ (آن لائن)گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ پولیٹکل فلاسفی ، شراکتی جمہوریت اور پولیٹکل ڈسکورس ایک دوسرے سے جڑے ہوئے وہ تصورات ہیں جو معاشرے میں جمہوری رویوں، سیاسی اداروں اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے طریقوں کو تشکیل دیتے ہیں۔

تقریبا پچھلے چار دہائیوں سے مسلسل پریکٹیکل پولیٹکس کرنے کی صورت میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سیاست اور ریاست میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی بجائے آپ ملکی سطح پر مسلسل باہمی مشاورت اور گرینڈ ڈائیلاگ کے رحجان کو جاری و ساری رکھیں کیونکہ مختلف سیاسی قائدین و ماہرین کے متنوع نقطہ ہائے نظر اور خاص طور پر خاموش اکثریت کی آوازوں کو سننے سے عوامی اعتماد پیدا کرنے میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یہی ملکی امور و معاملات چلانے میں زیادہ منصفانہ نتائج کو فروغ دیتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز گورنر ہاوس کوئٹہ میں مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا. اس موقع پر گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ بدقسمتی سے تیسری دنیا کی سیاست میں ماضی کی روایات اور گہرے عقیدے بھی شامل ہوتے ہیں جو انسانوں کی تقسیم اور پولرائزیشن کا باعث بنتے ہیں۔ یہ انسانوں کے درمیان مشترکہ بنیاد تلاش کرنا اور وسیع پیمانے پر احساس قبولیت حاصل کرنا مشکل بناتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سیاست میں اپنے سیاسی اکابرین سے لوگوں کو تقسیم کرنے کی بجائے انھیں متحد کرنے کا سبق سیکھا ہی. اسطرح معاشرہ میں ٹکراو کا ماحول پیدا کرنے کی بجائے مختلف اقوام اور مذہبی فرقوں کو آپس میں شیر و شکر بنانے کو ہمیشہ آولیت دی. گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا کہ موجودہ مشکل ملکی معاشی صورتحال اور خطے میں رونما ہونے والی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کے پیش نظر ہم مزید نفرتوں، حق تلیفوں اور تنازعات کا متحمل نہیں ہو سکتے لہذا اس ضمن میں باہمی افہام و تفہیم اور شراکتی طریقہ کار ہمیں زیادہ جامع، مساوی اور منصفانہ سیاسی عمل کی طرف لے جا سکتے ہیں اور اسی میں احساس قبولیت، اختلاف رائے کا احترام اور سب سے بڑھ کر مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کا راز پنہاں ہے۔