اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 فروری2025ء)اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ پارلیمانی فورمز جو تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوتے ہیں ،یہ فورمز بنیادی طور پر عوامی فلاح و بہبود کو فروغ دینے اور معاشرے کے پسماندہ طبقات، بشمول بچوں، خواتین اور نوجوانوں کی بہتری کے لیے قانون سازی کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان فورمز کا مقصد صرف ڈونرز کی طرف سے منعقدہ اجلاسوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کا سب سے اہم ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ پسماندہ طبقات کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مؤثر قانون سازی کریں، جو سماجی و اقتصادی حقائق پر مبنی ہو۔اسپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ قومی اسمبلی اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمانی سروسز (PIPS) پارلیمانی فورمز کی کارکردگی کو مؤثر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہے گیں۔
(جاری ہے)
انہوں نے پارلیمانی فورمز کو زیادہ مؤثر اور بامقصد ادارے بنانے پر زور دیا تاکہ وہ اپنے قانونی فرائض دیانت داری اور مؤثر طریقے سے سرانجام دیں۔ ان خیالات کا اظہار اسپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں خواتین پارلیمانی کاکس (WPC) کے زیر اہتمام منعقدہ قومی خواتین کنونشن کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ایوان میں خواتین پارلیمنٹرینز کے کردار کو سراہا اور ان کی قانون سازی میں ان کے کردار پر سراہا۔
انہوں نے پاکستان کے تمام سماجی و اقتصادی شعبوں میں خواتین کے فعال کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ خواتین کی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کردار قابل تعریف ہے۔انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں کام کرنے والی خواتین کو شام سے پہلے جانے کی اجازت دی تاکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور خاندانی زندگی میں توازن قائم رکھ سکیں۔ انہوں نے ملک کے سماجی و اقتصادی شعبے میں خواتین کی حمایت کی ضرورت پر زور دیا۔
سیکرٹری ڈبلیو پی سی ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شاہدہ رحمانی نے خواتین پارلیمنٹرینز کی قیادت میں ہونے والی قانون سازی کی کامیابیوں کو اجاگر کیا، خاص طور پر دفاتر میں ہراسانی کے خلاف تحفظ کا قانون"، جو تمام سیاسی جماعتوں کے مابین شاندار تعاون کی مثال ہے۔ انہوں نے عام انتخابات کے دوران خواتین ووٹرز کی کم از کم 10% شرکت کو یقینی بنانے کے لیے لازمی اقدامات پر بھی زور دیا۔
انہوں نے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان سے لے کر آج تک خواتین کی سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی شعبوں میں خدمات اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خواتین نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو جب بھی ملک کی خدمت کرنے کی نمائندگی دی گی تو انہوں نے بے مثال کارنامے سر انجام دیا ہے۔
انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو، نصرت بھٹو، کلثوم نواز سمیت دیگر خواتین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔خیبر پختونخوا اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر، ثریا بی بی، نے خواتین پارلیمانی کاکسز کے مؤثر استعمال اور بین الجماعتی تعاون کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ڈبلیو پی سی خیبر پختونخوا کی قانون سازی کی کامیابیوں، جن میں چائلڈ پروٹیکشن بل، خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کا بل، اور گھریلو تشدد کے خلاف تحفظ کے بل کی منظوری پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے خیبر پختونخوا میں نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے اقدامات کا بھی ذکر کیا، جن میں پہلی مرتبہ بچوں کی پارلیمنٹ کے قیام اور نوجوان پارلیمنٹیرینز فورم کی تشکیل شامل ہے، جو خیبر پختونخوا اسمبلی کے نوجوان ارکان کو بااختیار بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔بلوچستان اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر، غزالہ گولا، نے بلوچستان اسمبلی میں خواتین ارکان کی کامیابیوں کو اجاگر کیا، جن میں اینٹی ہراسمینٹ سیلز کا قیام، خواتین کی حیثیت کے حوالے سے صوبائی کمیشن کی تشکیل، اور دفاتر میں ہراسانی کے خلاف تحفظ کے قانون کی منظوری شامل ہیں۔
انہوں نے تجربات کے تبادلے اور خواتین کے مسائل کو وفاقی، صوبائی، علاقائی، اور مقامی سطح پر مشترکہ طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ خواتین کو بااختیار بنانے کے اثرات نچلی سطح تک پہنچ سکیں۔گلگت بلتستان اسمبلی کی رکن، محترمہ کلثوم فرمان، نے گلگت بلتستان اسمبلی میں خواتین کی قانون سازی میں شراکت پر روشنی ڈالی، جس میں خواتین کی حیثیت کے کمیشن کا قیام، بچوں کے حقوق کا فروغ، وراثت کے قوانین کا نفاذ شامل ہیں تاکہ استحصال کو روکا جا سکے، اور خطے میں خودکشی کے واقعات کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
انہوں نے کنونشن کو آگاہ کیا کہ گلگت بلتستان میں خواتین کی سماجی، اقتصادی، اور سیاسی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع اسٹیک ہولڈر اجلاس کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ممبر صوبائی اسمبلی اور وزیراعلیٰ سندھ کی معاون خصوصی، محترمہ تنزیلہ امِ حبیبہ، نے سندھ اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کی گئی دو قراردادوں کی تفصیلات شیئر کیں۔
ان قراردادوں میں پاکستان کی خواتین رہنماؤں، بشمول سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور خاتون اول محترمہ آصفہ بھٹو زرداری کی سماجی و سیاسی جدوجہد کو تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے تمام سطحوں پر خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے متحدہ قانون سازی کے نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیا۔ایم پی اے پنجاب، محترمہ عشرت اشرف، نے اس بات پر زور دیا کہ سماجی بدنامی اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنے کی فوری ضرورت ہے تاکہ خواتین کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کے ذریعے انصاف تک رسائی حاصل ہو سکے۔
انہوں نے خواتین کو انصاف تک بلا خوف رسائی فراہم کرنے اور انہیں محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے سماجی اصلاحات کی وکالت کی۔ایم این اے اور ڈبلیو پی سی کی خزانچی محترمہ شاہدہ بیگم نے صوبائی کاکسز کی ان کی وابستگی کو پورا کرنے اور خواتین پارلیمانی کاکسز کو فعال کرنے میں کامیابی پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے خواتین کے مسائل کو اسلامی نقطہ نظر سے حل کرنے اور ثقافتی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ ترقی پسند پالیسیوں کے تحت خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی۔
قومی خواتین کنونشن فعال پارلیمنٹرینز، صوبائی اسمبلیوں اور گلگت بلتستان اسمبلی کے اراکین کی بھرپور شرکت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، جہاں خواتین کو درپیش اہم مسائل پر گفتگو کی گئی۔ انہوں نے کم عمری کی شادیوں کے خاتمے، گھریلو تشدد کے خلاف مضبوط قانون سازی، خواتین کے معاشی استحکام، تنخواہوں میں صنفی فرق کو ختم کرنے، اور قیادت میں خواتین کی شمولیت بڑھانے پر زور دیا۔
اس کے علاوہ، سیاسی جماعتوں میں خواتین کے لیے انتخابی ٹکٹ کا کوٹہ 5% سے بڑھانے اور عام انتخابات میں خواتین امیدواروں کو مالی مدد فراہم کرنے کے معاملات بھی زیر بحث آئے۔کنونشن میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ خواتین کے حقوق اور بااختیار بنانے کے خلاف اندرونی اور بیرونی چیلنجز، جیسے نظامی امتیاز اور عالمی تنازعات، کو مؤثر پالیسیوں اور قانون سازی کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔