بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اسے بندوق کی طاقت سے حل نہیں کیا جاسکتا ، ساجد ترین ایڈووکیٹ

جمعہ 4 اپریل 2025 20:04

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 اپریل2025ء) بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اسے بندوق کی طاقت سے حل نہیں کیا جاسکتا اور لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کئے بغیر صوبے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں بنایا جاسکتا ہمارے لانگ مارچ کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے ہماری بچیوں کوباعزت رہا کیا جائے بصورت دیگرلانگ مارچ لکپاس سے 6 اپریل کو کوئٹہ کیلئے روانہ ہوگا لانگ مارچ میں کوئٹہ پریس کلب ، بلوچستان یونیورسٹی اور دیگرمقامات سے قافلے روانہ ہوں گے جہاں بھی لانگ مارچ کو روکا گیا وہاں دھرنا دیں گے حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپوزیشن جماعتوں نیشنل پارٹی کے میر کبیر احمد محمد شہی ، اے این پی کے رشید ناصر، پی ٹی آئی کے دائود شاہ کاکڑ، بلوچستان بار کوسل کے راحب بلیدی ایڈووکیٹ، پی ٹی ایم کے نور باچا سمیت دیگر کے ہمراہ جمعہ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا اس موقع پر سردار کمال خان بنگلزئی، ملک نصیر احمد شاہوانی، میر مقبول احمد لہڑی، غلام نبی مری، آغا حسن ایڈووکیٹ، میر وحید لہڑی، شکیلہ نوید دہوارسمیت دیگربھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

ساجد ترین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اداروں کی مداخلت کے خاتمے تک ملکی حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے کیونکہ گزشتہ 74 سالوں سے بلوچستان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا جارہا ہے۔ تمام جمہوری قوتوں نے ہمارے احتجاجی دھرنے کی حمایت کی ہے بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اسے بندوق کی نوک پر حل نہیں کیا جاسکتابلوچستان کی اپنی روایات ہیں اور خواتین کو ہمیشہ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

موجودہ حکومت نے ہماری خواتین کو نہیں بخشا اور سڑکوں پر گھسیٹا ان کے سروں سے دوپٹے کھینچے فارم 47 کی حکومت کو پہلے ہی لانگ مارچ اور اپنے مطالبات سے آگاہ کیا تھالیکن حکمرانوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور گزشتہ 70 سال سے جاری ناروا پالیسیوں پر عمل پیراہوکر لانگ مارچ کے شرکاء اور صوبے کے لوگوں کے خلاف وہی روش اپنا رکھی ہے انہوں نے کہا کہ سوئی ، گیس ، ریکوڈک، سیندک اور 750 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی گوادر کے وسائل کو لوٹنے کے علاوہ سی پیک کے نام پر تمام میگا منصوبے ملک کے دیگر صوبوں میں بنائے گئے اور بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا حالات کی نذاکت کو سمجھنے کی بجائے سخت گیر موقف اپنا کر اقدامات اٹھائے گئے گزشتہ 74 سالوںسے ہمارے ساتھ یہی روش اپنائی گئی اور اب ملک بھر کی طرح بلوچستان میں چور ڈاکو حکمران بر سراقتدار ہے جنہیں آئین اور جمہوریت کی پاسداری کا حساس نہیں وہ بربریت کرتے ہوئے لوگوں کے خلاف غیر قانونی اقدامات کررہے ہیں ہماری جماعت گزشتہ 20 سال سے لاپتہ افراد کے مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہے کیونکہ اس مسئلے کے حل کے بغیر صوبے میں امن قائم نہیں ہوسکتا اور یہ تمام مسائل سیاسی اور جمہوری انداز میں حل ہوسکتے ہیں بندوق اور طاقت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا حکمران طاقت سے لوگوں کو لاپتہ کرکے ان کی نعشیں پھینک کر ان کے گھروں کو تباہ کرسکتے ہیں لیکن بلوچ اور پشتون کو زیر نہیں کرسکتے ہماری اپنی روایات اور کلچر ہے جس کو حکمرانوں نے ملیا میٹ کرتے ہوئے خواتین کو بھی نہیں بخشا انہیں سڑکوں پر گھسیٹا ان کے دوپٹے کھینچے حالانکہ وہ ہماری بچیاں اپنے والدین اور پیاروں کی بازیابی کیلئے پر امن جدوجہد کررہی تھی ان کا مطالبہ آئین پاکستان کے مطابق ہے پاکستان کے آئین کے خلاف کوئی ڈیمانڈ نہیں انہوں نے انصاف کے حصول کیلئے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرکے دھرنا دیا وہاں پر ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہم بلوچستان میں محکوم مظلوم ہے ہماری بچیوں کو بھی انصاف نہیں دیا جارہا ہماری جماعت نے 28 مارچ کو ننگ و ناموس کی خاطر اپنی بچیوں کی رہائی کیلئے لانگ مارچ کیا جس کو تمام سیاسی جماعتوں قبائلی عمائدین اور عوام کی تائید و حمایت حاصل تھی لکپاس پر لانگ مارچ کو روکا گیا اور ہم نے کشت و خون کو روکنے کے لئے وہی دھرنا دیا سندھ حکومت نے تھری ایم پی او واپس لیکر سمی دین بلوچ کو رہا کیا بلوچستان حکومت اس پر کوئی اقدام نہیں اٹھارہی حالانکہ سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے ایک ملک ایک قانون اور 2 صوبے ہیں لیکن قوانین کو تسلیم نہیں کیا جاتا ماہرنگ سمیت دیگر اسیران کی رہائی کو یقینی بنایا جائے تو ہم اپنااحتجاج ختم کریں گے بصورت دیگرکوئٹہ کیلئے لانگ مارچ کریں گے کوئٹہ پریس کلب اور سریاب سے قافلے روانہ ہوں گے لانگ مارچ کو روکنے کے لئے جگہ جگہ کنٹینر لگاکر خندقیں کھودی گئی ہیں اور حکمران جان بوجھ کر رکاوٹیں پیدا کرکے نفرت میں اضافہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے نوجوان پہاڑوں پر جانے پر مجبور ہوئے ہیں احتجاج کرنا ہمارا آئینی اور جمہوری حق ہے اس کو چھینا جارہا ہے آج بلوچستان کی تمام اپوزیشن جماعتیں، قبائلی رہنماء اس ننگ و ناموس کیلئے متحد ہے اس موقع پر کبیر احمد محمد شہی نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ روز اول سے ہی ناروا سلوک روا رکھا جارہا ہے ہماری حکومتوں کو اپنے حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کیلئے جاری اقدامات کی پاداش میں چلنے نہیں دیا جاتا اور اقتدار سے نکال دیا جاتا ہے یہاں پر بسنے والی تمام قومیں ان روا اقدامات کے خلاف ہمارے وسائل کو شروع دن سے ہی بے دردیسے لوٹا جارہاہے لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں بی این پی اور دیگر رہنمائوں کے خلاف روڈ بلاک کرنے کی پاداش مقدمات درج کئے جاتے ہیں لیکن سرکار کی جانب سے روڈ بلاک کرنے پر ان کیخلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوتا یہ قانون کی خلاف ورزی ہے اس موقع پر دائود شاہ کاکڑ، نصیر ناصر، نور باچا خان نے بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے لانگ مارچ ون نکاتی ایجنڈے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ماہرنگ بلوچ سمیت تمام اسیران کو رہا کیا جائے بصورت دیگر ہم تمام جماعتیں لانگ مارچ میں شرکت کریں گی ایک سوال کے جواب میں ساجد ترین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ خونریزی نہ ہو اور اسٹیبلشمنٹ اور مقتدرہ کی اپنی حدود میںرہنے تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی جب تک ادارے اپنی حدود میں رہ کام نہیں کریں گے اس وقت تک مسائل حل نہیںہوسکتے حدود سے تجاوز کرنے سے مسائل بڑھے ہیں حکومت کی جانب سے لانگ مارچ لکپاس پر پہنچنے کے باوجود کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی اور نہ ہی مسائل کے حل کیلئے کوئی اقدام اٹھایا گیا بس وسائل کو بے دردی سے لوٹنے کا عمل جاری ہے اس عمل ہم مذمت کرتے ہیں۔