Live Updates

اس وقت براہ راست کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی فعال رابطہ نہیں رہا

اسٹیبلشمنٹ کمپرومائز کے موڈ میں نظر نہیں آتی اور اگر کوئی لچک دکھانی ہے تو وہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو دکھانی ہوگی، اگر کوئی بات چیت ہوتی بھی ہے تو وہ بالواسطہ یا انڈائریکٹ ذرائع سے کی جاتی ہے، سینئر صحافی و تجزیہ کا ر حامد میر کا انکشاف

Faisal Alvi فیصل علوی پیر 21 اپریل 2025 13:10

اس وقت براہ راست کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21اپریل 2025)سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ اس وقت براہ راست کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی فعال رابطہ نہیں رہا، اگر کوئی بات چیت ہوتی بھی ہے تو وہ بالواسطہ یا انڈائریکٹ ذرائع سے کی جاتی ہے،آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کمپرومائز کے موڈ میں نظر نہیں آتی اور اگر کوئی لچک دکھانی ہے تو وہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو دکھانی ہوگی۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جماعت کے کچھ رہنما، جن پر اسٹیبلشمنٹ کو اعتماد ہے جن میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر خان ان کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ ہوا لیکن عمران خان نے وہ شرائط تسلیم نہیں کیں جس کے باعث بات آگے نہیں بڑھی۔

(جاری ہے)

ماضی کی مثالیں دیتے ہوئے حامد میر نے بتایا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بعض سیاستدانوں سے جیل میں یا کسی تیسرے مقام پر براہ راست ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں، جیسے یوسف رضا گیلانی، آصف علی زرداری اور دیگر جن سے اسٹیبلشمنٹ کے افسران آکر ملتے تھے لیکن اب ایسا سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کے دعوے جس میں ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات جاری ہیں اور بانی پی ٹی آئی عمران خان چالیس، پینتالیس دنوں میں رہا ہو سکتے ہیں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے بلکہ ان کی مشاہدے کے مطابق صورتحال اس کے برعکس ہے۔پروگرام میں گفتگو کے دوران سینئر صحافی حامد میر نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ بیرسٹر گوہر خان مسلسل عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تھوڑی نرمی دکھائیں۔

خاص طور پر سوشل میڈیا کے حوالے سے پارٹی کی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں تاکہ مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان شاید خود کو نواز شریف سے مختلف ثابت کرنا چاہتے ہیںجو دو مرتبہ جیل سے نکل کر بیرون ملک چلے گئے اور سیاسی طور پر کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن عمران خان اس وقت سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں، جو کہ ان کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

حامد میر نے بتایا کہ اس وقت جو پی ٹی آئی کے رہنما جیل سے باہر ہیں ان کے خلاف بھی مقدمات چل رہے ہیں اور ان کی ضمانتیں منسوخ ہو رہی ہیں جبکہ عدالتی رعایت کے باوجود گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ اس لئے فوری رہائی کے آثار نظر نہیں آتے، جب تک کوئی فریق کمپرومائز نہ کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) جیسے سیاسی مخالفین قومی مسائل پر متحد ہو کرخیبر پختونخوا ہ میں مشترکہ مظاہرے کریں تو ان سے سیاسی مفاہمت کی راہیں کھل سکتی ہیں لیکن فی الحال کسی جانب سے کوئی سنجیدہ پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔

حامد میر نے گفتگو کے مزید یہ انکشاف بھی کیا کہ دو تین دن قبل سلمان اکرم راجہ اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان طویل ملاقات ہوئی ہے جبکہ تحریک انصاف کے کچھ رہنما ءپیپلز پارٹی کے ساتھ بھی رابطے کروا رہے ہیں۔ خصوصاً سندھ میں نہری مسائل پر تاکہ کوئی مشترکہ سیاسی حکمت عملی اپنائی جا سکے۔ اس کے ممکنہ نتائج میں تحریک عدم اعتماد کی صورت میں پیپلز پارٹی کی حمایت بھی شامل ہو سکتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہاکہ ملک اس وقت جن داخلی چیلنجز اور سیاسی خلفشار سے گزر رہا ہے اس کا سب سے بڑا نقصان ریاست پاکستان کو ہو رہا ہے۔ پاکستان کو اس وقت سیاسی استحکام، معاشی بہتری اور قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ادارے، سیاسی قیادت اور دیگر سٹیک ہولڈرز ہوش کے ناخن نہ لیں تو نہ صرف جمہوری عمل متاثر ہوگا بلکہ ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سب فریقین ذاتی انا اور سیاسی ضد سے بالاتر ہوکر پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے سے بات کریں ورنہ یہ ٹکراو صرف عوام کی مشکلات کو بڑھائے گا۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات