اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 مئی 2025ء) دنیا بھر کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ''امریکا فرسٹ‘‘ پالیسیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ گلوبل یو ایس ایڈ پروگرام کی بندش ہے۔
اپریل کے اوائل میں یو ایس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن پاکستان (یو ایس ای ایف پی)کے آفیشل سوشل میڈیا پیجز سے ایک اعلان جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق پاکستان میں یو ایس ایڈ انڈر گریجویٹ پروگرام اور انڈر گریجویٹ ایکسچینج پروگرام معطل کر دیا گیا ہے۔
اس اعلان کے فوری بعد اس کی ایک وضاحت بھی جاری کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ 54 پاکستانی طلبا جو انڈر گریجویٹ پروگرام کے تحت امریکی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔(جاری ہے)
جبکہ فل برائٹ اسکالر شپ والے طلبا کو بھی تعلیمی وظیفہ ملتا رہے گا۔
لیکن دو ہفتے گزر جانے کے باوجود ان 530 پاکستانی طلباء کے متعلق یو ایس ای ایف پی یا ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا، جو 30 پاکستانی یونیورسٹیوں میں پاک -یو ایس میرٹ اینڈ نیڈ بیسڈ اسکالر شپ کے تحت زیر تعلیم تھے۔
واضح رہے کہ اگست 2022ء میں تاریخی تباہ کن سیلاب کے بعد یو ایس ایڈ پروگرام نے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے تعاون سے 530 مستحق طلباء کو انڈر گریجویٹ پروگرام کے لیے اسکالر شپس جاری کی تھیں۔ ایچ ای سی کے زیر انتظام چلنے والے اس اسکالر شپ پروگرام کو جون 2026ء میں مکمل ہونا تھا۔ یہ 530 طلباء یو ایس ایڈ کی پارٹنر 30 پاکستانی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔
ان کا تعلق پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے ان دیہی علاقوں سے ہے جو سیلاب سے شدید متاثر ہوئے تھے۔ڈی ڈبلیو کو دستیاب اس پروگرام کی دستاویزات کے مطابق پاک- یو ایس میرٹ اینڈ نیڈ بیسڈ اسکالر شپ پروگرام کے فیز ٹو کی منظوری نیشنل اکنامک کاؤنسل نے اکتوبر 2013 میں دی تھی، جس کے لئے ابتدا میں دو اعشاریہ پچانوے بلین ڈالر کی رقم مختص کی گئی تھی۔
اس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کا اشتراک بھی شامل تھا۔اسی پروگرام کو توسیع دیتے ہوئے 2022ء کوتوسیع دیتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے ضرورت مند طلباء کو تعلیمی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ اس اسکالرشپ سکیم میں جون 2026 کے بعد مزید توسیع بھی زیر غور تھی کہ اسے اچانک بند کر دیا گیا۔
طلباء کیا کہتے ہیں؟
عمررضا (تبدیل شدہ نام) کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک دیہی علاقے سے ہے وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں انڈر گریجویٹ پروگرام میں زیر تعلیم ہیں۔
عمر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کا تعلق ایک غریب کسان فیملی سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2022 میں تباہ کن سیلاب کے بعد صورتحال کچھ ایسی تھی کے ان کے لئے تعلیم جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔عمر رضا اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ان پانچ طلباء میں شامل تھے، جنھیں 2023ء میں پاک- یو ایس میرٹ ایند نیڈ بیسڈ سکالر شپ دیا گیا تھا۔ ان میں ایک طالبہ بھی شامل تھیں۔
فی الوقت اسکالرشپ پروگرام کی اچانک بندش سے یہ پانچوں طلباء شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ عمر کے مطابق یونیورسٹی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے یہی کہا جا رہا ہے کہ انھیں تعلیمی پروگرام مکمل کرنے کے لئے ہر ممکن مدد دی جائے گی۔ماہ نور بلوچ (تبدیل شدہ نام) کا تعلق بلوچستان کے ضلع لورالائی سے ہے وہ فی الوقت یو ایس ایڈ کی پارٹنر سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی کوئٹہ میں انڈر گریجویٹ پروگرام میں زیر تعلیم ہیں۔
انھیں بھی 2023 میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا پاک یو ایس نیڈ بیسڈ اسکالر شپ دیا گیا تھا۔ماہ نور نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کا تعلیمی پروگرام 2026 میں مکمل ہوگا۔ لیکن وہ ابھی سے کوئٹہ میں ملازمت کرنے کے لئے منصوبہ بندی کر رہی ہیں تاکہ اپنی چھوٹی دو بہنوں کے تعلیمی اخراجات پورے کر سکیں۔ لیکن اچانک اسکالر شپ کی بندش سے ان کے سارے خواب بکھر گئے ہیں۔
ماہ نور کے والد محنت مزدوری کرتے ہیں اور ان کی اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کر سکیں۔ انھوں نے یونیورسٹی اور ایچ ای سی سے مالی معاونت کی درخواست کی ہے۔ڈوئچے ویلے نے اس حوالے سے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کراچی یونیورسٹی اور مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ خیر پور کے اسی سکالر شپ پر زیر تعلیم طلبا و طالبات سے بھی بات کی۔
ان میں سے بیشتر تعلیمی پروگرام مکمل کرنے کے حوالے سے خدشات کا شکار تھے اور ایچ ای سی کے کسی دوسرے اسکالر شپ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ڈوئچے ویلے نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی آفیشل شائستہ سہیل سے رابطہ کر کے اس حوالے سے پیش رفت معلوم کرنے کی کوشش کی مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
یو ایس ایڈ اسکالرشپ اورایکسچینج پروگرام، ہر طالبعلم کا خواب
ڈاکٹر سارا سلطان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور سے ہے۔
سارا فی الوقت کیلیفورنیا انرجی کمیشن امریکہ سے سینئر سٹاف کی حیثیت وابستہ ہیں اور انرجی سیکٹر میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی چنیدہ خواتین سائنسدانوں میں شامل ہیں۔ڈاکٹر سارا سلطان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کی ترقی کے سفر کا آغاز دس برس قبل یو ایس ایڈ انڈر گریجویٹ اسکالر شپ سے ہوا تھا۔ بعد ازاں انہیں یو ایس ایڈ کے تحت سیمسٹر ایکسچینج پروگرام اور یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف انرجی کی فیلوشپ کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔
جبکہ امریکہ میں اپنے پی ایچ ڈی کے دوران انہوں نے متعدد اعزازات بھی حاصل کیے۔ڈاکٹر سارا امریکہ میں اسکالرشپ کے حصول کے لیے پاکستانی طلبا کو سوشل میڈیا لائیو سیشنز کے ذریعے گائیڈ بھی کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یو ایس ایڈ اسکالر شپ اور ایکسچینج پروگرام ہر اس باصلاحیت طالبعلم کا خواب ہوتا ہے، جو امریکہ اور دیگر ممالک میں کیریئر بنانے میں دلچسپی ہے۔
وہ کیریئر میں آج جہاں ہیں، یو ایس ایڈ اسکالرشپ کے بغیر شاید یہ ممکن نہ ہوتا۔سارا کا کہنا تھا یو ایس ایڈ سکالر شپ کی بندش کی وجہ سے طلبہ شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا، '' اس صورتحال میں پاکستانی حکومت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بیرون ملک گرانٹس کے بجائے خود کفیل ہونے اور اپنے ذرائع سے طلباء کو اسکالر شپ فراہم کرنی کی حکمت عملی اپنانی چاہیے بنانی چاہیے۔
‘‘اس حوالے سے یونیورسٹی آف پنجاب کے وائس چانسلر پروفیسر محمد علی کہتے ہیں کہ یو ایس ایڈ پروگرام نا صرف مستحق طلبا کومالی معاونت فراہم کر رہا تھا بلکہ پاکستان بھر میں اپنی پارٹنر یونیورسٹیوں کو دنیا بھر کی جامعات کے ساتھ تحقیقی اشتراک میں مدد بھی فراہم کرتا تھا۔ پروفیسر علی کے مطابق ایچ ای سی کے پاس تحقیق کے لیے فنڈز کی قلت ہے، لہذا یو ایس ایڈ کی بندش کا براہ راست اثر پاکستانی جامعات میں ہونے والی تحقیق پر پڑے گا۔
یو ایس ایڈ گلوبل ایکسچینج پروگرام کی سابق طالبہ پلوشہ شہزاد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ موجودہ صورتحال یقینا ہزاروں طلبا کے لئے بہت مایوس کن ہے ۔مگر یہ ایچ ای سی اور طلبا دونوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اگر ہم نے اپنے تعلیمی و تحقیق نظام کو بہتر کر کے مقامی ذرائع سے طلبا کو امداد فراہم کر نے پر توجہ دی ہوتی تو آج طلبا اتنے مایوس نہ ہوتے۔
تاجدار ہاشمی نے رواں برس یو ایس ایڈ انڈر گریجویٹ اسکالر شپ کے لیے اپلائی کیا تھا اور انھیں جنوری میں انٹرویو کال بھی آئی تھی۔ مگر اب اچانک ای میل کے ذریعے انہیں اس پروگرام کی بندش سے آگاہ کیا گیا ہے۔ تاجدار کہتے ہیں کہ حکومت اور ایچ ای سی کو صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے انڈر گریجوئیٹ طلبا کے لئے فوری طور پر متبادل سکالر شپ سکیمیں شروع کرنی چاہیں تاکہ ہمارا تعلیمی سال ضائع نہ ہو۔