اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مئی2025ء)پاکستان سے سفارتی اور فوجی محاذ پر ذلت آمیز شکست کے بعد بھارت کی سفارتی سطح پر ساکھ بحال کرنے کی کوشش بھی ناکام ہوتی دکھائی دینے لگی ۔عالمی جریدے ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق مودی کی جانب سے سفارتی سطح پر ساکھ بحال کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے وفد پر بھی بھارت میں اختلافات سامنے آگئے ہیں۔
ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں سفارتی وفد کے سربراہ کے بیانات نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) اور اپوزیشن جماعت کانگریس میں لفظی جنگ چھیڑ دی ہے۔وفد کے اراکین خود مودی سرکار پرشدید تنقید کر رہے ہیں، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سوال اٹھایا گیا ہے کہ وفد میں تمام جماعتوں کی نمائندگی کیوں نہیں متعدد سیاسی رہنماؤں نے اس وفد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔
(جاری ہے)
اپوزیشن رہنما سنجے راوت کے مطابق مودی سرکار سفارتی کمیٹی سے بھی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کی جانب سے بھیجے گئے نام بھی مودی سرکار نے مسترد کر دیے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ششی تھرور نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ مرکزی حکومت نے مجھ سے وفد کی قیادت کرنے کے لیے میری رضامندی طلب کی تھی، میں نے فخر سے جواب دیا ’ہاں‘، میں پارلیمانی کمیٹی برائے خارجہ امور کا سربراہ بھی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ یہ تنازع بی جے پی حکومت اور کانگریس کے درمیان ہے، پارلیمانی امور کے وزیر نے مجھے فون کیا تھا، میں نے اپنی پارٹی کو ان کی دعوت کے بارے میں ا?گاہ کر دیا ہے۔کانگریس کے رہنما جے رام رمیش نے بی جے پی کی جانب سے ششی تھرور کے انتخاب کو ’باڈی لائن‘ سے تشبیہ دی، جو (1932-33 کی ایشز سیریز کے دوران انگلش فاسٹ باؤلرز کا آسٹریلوی بلے بازوں کے جسم کو نشانہ بنانے کا متنازع طریقہ) ہے، تاہم انہوں نے تھرور کے خلاف ممکنہ تادیبی کارروائی سے متعلق سوال کو نظرانداز کر دیا۔
ششی تھرور نے وزیراعظم مودی کی آپریشن سندور اور پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کی تعریف کرکے اپنی پارٹی کو ناراض کر دیا ہے۔جب پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے 7 وفود کے سربراہان کے ناموں کا اعلان کیا، تو تھرور کا نام سرفہرست تھا، باقی 6 میں سے 2 (ارکان پارلیمنٹ) حزب اختلاف سے تھے۔وفد کے 6 ارکان میں روی شنکر پرساد (بی جے پی)، بایجیانت پانڈے (بی جے پی)، سنجے کمار جھا (جے ڈی یو)، کنی موزی کروناندھی (ڈی ایم کی)، سپریا سولے (این سی پی۔
ایس پی) اور شری کانت ایکناتھ شنڈے (شیو سینا) شامل تھے۔حکومت نے ابھی دیگر وفود کے اراکین کے ناموں کا اعلان نہیں کیا، لیکن کہا ہے کہ ہر وفد میں مختلف جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ، ممتاز سیاسی شخصیات اور نمایاں سفارت کار شامل ہوں گے۔تھرور کی تقرری بطور سربراہ اس کے باوجود ہوئی کہ کانگریس نے ان کا نام نامزد نہیں کیا تھا۔حکومت نے گزشتہ جمعے کو کانگریس سے کہا تھا کہ وہ اپنے 4 اراکین پارلیمنٹ کو وفود کا حصہ بنانے کے لیے نامزد کرے، کانگریس نے سابق وزیر آنند شرما، لوک سبھا میں ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی، ارکان پارلیمنٹ سید نصیر حسین اور راجا برار کے نام دیے تھے۔
حکومت نے کانگریس کے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا، لیکن بی جے پی کے سوشل میڈیا سربراہ امیت مالویہ نے راہول گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے مداخلت کی، انہوں نے ’ایکس‘ پر ششی تھرور کی فصاحت کی تعریف کی اور سوال اٹھایا کہ ان کی پارٹی نے انہیں نامزد کیوں نہیں کیا ۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ششی تھرور کی فصاحت، اقوام متحدہ کے عہدیدار کے طور پر ان کے طویل تجربے، اور خارجہ پالیسی پر ان کی گہری بصیرت سے انکار نہیں کر سکتا۔
تو پھر کانگریس پارٹی خاص طور پر راہول گاندھی نے انہیں کثیر الجماعتی وفود کے لیے نامزد کیوں نہیں کیا کیا یہ عدمِ تحفظ ہی حسد ہی یا پھر ’ہائی کمانڈ‘ سے بہتر نظر آنے والوں کے لیے عدم برداشت مالویہ نے کانگریس کے دو نامزد اراکین راجیہ سبھا کے ایم پی حسین اور لوک سبھا کے ایم پی گوگوئی کی اہلیت پر بھی سوال اٹھایا کہ کیا وہ پاکستان سے متعلق معاملات پر بھارت کی نمائندگی کرنے کے قابل ہیں انہوں نے دعویٰ کیا کہ حسین کے حامیوں نے ان کی راجیہ سبھا میں جیت کے موقع پر کرناٹک اسمبلی کے اندر ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے تھے۔
انہوں نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے اس الزام کا بھی حوالہ دیا کہ گوگوئی نے اپنی بیوی کے ساتھ پاکستان میں 15 دن گزارے تھے۔سرما نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے راہول گاندھی سے مطالبہ کیا کہ وہ گوگوئی کا نام فہرست سے نکال دیں۔