Live Updates

سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں 137 ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور عمارتوں کی تعمیر

پورے ملک میں جنگلات ‘زراعت‘جنگلی حیات کے لیے مختص زمینوں پر تجاوزات قائم ہیں حکمرانوں یا افسرشاہی موسمیاتی تبدیلیوں کے معاملے میں مسلسل غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتی آرہی ہیں .ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 26 مئی 2025 19:22

سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں 137 ہوٹلز، ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 26 مئی ۔2025 )سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں 137 ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور عمارتوں کی تعمیر کا انکشاف سامنے آیا ہے وزارت موسمیاتی تبدیلی کے حکام کا کہنا ہے کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں 137 ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور عمارتوں کی تعمیرات ہوئی ہیں، مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں 26 ریسٹورنٹس ہیں اور 22 ٹک شاپس ہیں جبکہ شکر پڑیاں کے علاقے میں 9 ریسٹورنٹس اور 4 کلب، 8 ہوٹلز اور 55 حکومتی عمارتوں کے علاوہ 10 مذہبی عمارتیں اور 3 مارکیاں ہیں ان تمام تعمیرات کی اجازت سی ڈی اے نے دے رکھی ہے.

(جاری ہے)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں یہ انکشاف سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد سامنے آیا ہے جن کے تحت عدالت نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ہوٹلوں‘ریسٹورنٹس اور دیگر تعمیرات کو غیرقانونی تجاوزات قراردیتے ہوئے ختم کرنے کا حکم دیا تھاجون2024میں اپنے حکم نامے میں سپریم کورٹ نے پچھلے سال11ستمبر تک علاقے میں موجود ریسٹورنٹس‘کلب اور دیگر تعمیرات کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا .

مارگلہ ہلزنیشنل پارک میں قائم ایک بڑے ریسٹورنٹ کی لیزبھی سال2021میں ختم ہوچکی ہے اور اس علاقے کی ملکیت پر بھی سی ڈی اے‘اسلام آباد وائلڈلائف بورڈ اور فوج کے ری ماو¿نٹ ویٹرنری اینڈ فارمز کور کے درمیان تنازعہ ہے جبکہ مارگلہ ہلزنیشنل پارک کی بحالی کے حوالے سے کیس پر سپریم کورٹ نے تاحال حتمی فیصلہ نہیں سنایا . دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف اسلام آباد مارگلہ ہلزنیشنل پارک تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں جنگلات ‘زراعت‘جنگلی حیات کے لیے مختص زمینوں پر تجاوزات قائم ہیں حکمرانوں یا افسرشاہی موسمیاتی تبدیلیوں کے معاملے میں مسلسل غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتی آرہی ہیں .

ماحولیات کے موضوع پر درجنوں مضامین اور تحقیقاتی رپورٹس کے مصنف میاں ندیم کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کا محکمہ ہو یا وفاقی اور صوبائی حکومتیں کئی دہائیوں تک انہوں نے اس اہم ترین مسلے کو نظراندازکیا ہے جبکہ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی ادارے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیو ں کے ممکنہ اثرات اور زرعی پیدوار میں کمی سے مسلسل خبردار کرتے آئے ہیں مگر حکومتیں اور بیوروکریسی حقائق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ جنگلات کے رقبے میں مسلسل کمی کے علاوہ ملک میں زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیاں بنانے کا رجحان دہائیوں سے جاری ہے .

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اب حکومتیں اور افسرشاہی نے اربنائزیشن‘زرعی رقبے میں کمی جیسے امورپر بات کرنا شروع کردی ہے مگر عملی اقدامات کہیں نظرنہیں آتے انہوں نے کہا کہ سموگ کے مسلے پر محکمہ ماحولیات پنجاب کے لیے لکھی گئی ایک مفصل رپورٹ میں انہوں نے شہروں کے خطرناک حد تک پھیلاﺅ ‘شہروں کے درمیان زرعی علاقوں کے خاتمے‘جنگلات کی زمینوں پر قبضے اور درختوں کی کٹائی سمیت گاڑیوں اور مشنری کی خطرناک حد تک بڑھتی تعدادکو اوسط درجہ حرارت میں اضافے اور سموگ کی بنیادی وجہ قراردیا تھا.

انہوں نے کہا کہ ان کی سفارشات افسرشاہی کی نالائقی اور نااہلی کی نذرہوگئی ‘موحولیات پر اس رپورٹ کی ایک کاپی انہو ں نے اس وقت کے گورنرپنجاب چوہدری سرورکو بھی دی تھی اس کے علاوہ اس رپورٹ کی کاپیاں تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی محکموں اور اداروں کو ارسال کی گئیں تھیں مگر حکمران طبقہ اور افسرشاہی کے زمینوں کے دھندے میں شامل ہونے کی وجہ سے سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا.

انہوں نے کہاکہ وہ آج بھی اپنے دعوے پر قائم ہیں گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ‘شہری علاقوں میں قائم فیکٹریاں اورآبادزرعی رقبوں میں تنزلی اور آٹومیشن کا حد سے زیادہ استعمال فضائی آلودگی‘درجہ حرارت میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی رفتار کو کئی گنا بڑھانے کے ذمہ دار ہیں. انہوں نے کہا کہ اگر یہ روش نہ بدلی گئی تو چند سالو ں میں پینے کے پانی کے ساتھ ساتھ خوراک کا بحران شدید ہوجائے گا آنے والی تباہی کو روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر شہروں کی مسلسل توسیع کی بجائے نئے شہر بسانے‘زرعی زمینوں کی آبادکاری میں اضافے‘شہروں کے گردونواح میں نئی رہائشی کالونیوں کے اجازت نامے منسوخ کرنے‘بڑے شہروں میں غیرضروری تعمیرات پر فوری پابندی‘خالی زمینوں پر شجرکاری جیسے اقدامات کرکے ڈیمج کو کسی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے.


Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات