Live Updates

انسداد دہشت گردی میں پاکستان 'غیر معمولی شراکت دار' امریکی جنرل

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 12 جون 2025 11:00

انسداد دہشت گردی میں پاکستان 'غیر معمولی شراکت دار' امریکی جنرل

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) امریکہ کی سینٹرل کمان (سینٹ کام) کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ علاقائی سلامتی کی کارروائیوں میں اسلام آباد ایک اہم شراکت دار رہا ہے۔

ایک ایسے وقت جب بھارت دہشت گردی کے تعلق سے پاکستان کو تن تنہا کرنے کی سفارتی کوششیں کر رہا ہے اور اس کام کے لیے اس کے وفود امریکہ سمت بہت سے ممالک کا دورہ کرتے رہے ہیں، یہ بیان نئی دہلی کے لیے کسی سبکی سے کم نہیں ہے۔

جب سے یہ بیان سامنے آیا ہے، بھارتی میڈیا شدید نکتہ چینی پر مبنی خبریں نشر کر رہا ہے اور بہت سے حلقے اب یہ کھل کر کہنے لگے ہیں کہ پاکستان کے خلاف بھارت کی حالیہ سفارتی کوششیں کسی کام کی نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

مسئلہ کشمیر دو ملکوں کا نہیں بلکہ عالمی تنازع ہے، بلاول بھٹو

امریکی جنرل نے پاکستان کے بارے میں مزید کیا کہا؟

سینٹرل کمان (سینٹ کام) کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے خاص طور پر اسلامک اسٹیٹ خراسان (آئی ایس آئی ایس کے) کے نام سے معروف نام نہاد اسلامی شدت پسند گروپ کے خلاف کارروائیوں کے لیے پاکستان کی کھل کر تعریف کی۔

جنرل کوریلا نے انسداد دہشت گردی میں پاکستان کے تعاون کی تعریف کرتے ہوئے اسے "غیر معمولی شراکت دار" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ "وہ (پاکستان) اس وقت انسداد دہشت گردی کے خلاف ایک فعال لڑائی میں ہیں، اور وہ انسداد دہشت گردی کی دنیا میں ایک غیر معمولی شراکت دار بھی رہے ہیں۔"

امریکہ میں مبینہ حملے کا منصوبہ، پاکستانی شخص کینیڈا سے امریکہ کے حوالے

پاکستان خود بھی دہشت گردی سے متاثر ہے

پاکستان کے اپنے اندرونی سلامتی کے چیلنجوں کو اجاگر کرتے ہوئے جنرل کوریلا نے امریکی قانون سازوں کو بتایا کہ ملک کو 2024 کے آغاز سے اب تک اپنے مغربی علاقوں میں ایک ہزار سے زیادہ دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کے نتیجے میں تقریباً 700 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہو چکے ہیں۔

انہوں نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کو ایک "غیر معمولی شراکت دار" کے طور پر بیان یا۔

پاکستان اور بھارت دونوں سے رشتے رکھنے پر زور

امریکی ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے ہوئے جنرل کوریلا نے پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو برقرار رکھنے کی پرزور وکالت کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کو اپنی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی کو صفر کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے۔

پاک، بھارت کشیدگی: پاکستانی اعلیٰ اختیاراتی وفد غیرملکی دورے پر

انہوں نے کہا کہ "ہمیں پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ نہیں مانتا کہ یہ ایک ایسا یکطرفہ معاملہ ہے کہ اگر ہم بھارت کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں، تو پاکستان کے ساتھ ہم رشتے نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں تعلقات کے مثبت پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوئے، ان کی خوبیوں کو دیکھنا چاہیے۔

"

بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر حالیہ ہفتوں میں کئی بار اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ "دہشت گردی کے متاثرین اور اس کے مرتکبین کو یکساں" نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے اور اس پس منظر میں امریکی جنرل کا یہ بیان نئی دہلی کے توقعات کے برعکس ہے۔

امریکہ پاکستان اور بھارت کے بحران میں مداخلت نہیں کرے گا، وینس

داعش کے خلاف پاکستان کے آپریشنز

جنرل کوریلا نے پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد نے آئی ایس آئی ایس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے لیے افغانستان-پاکستان سرحد کے آس پاس "درجنوں آپریشن" کیے ہیں۔

واشنگٹن میں ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران بات کرتے ہوئے جنرل کوریلا نے داعش کے اس گروپ کو امریکہ سمیت "عالمی سطح پر بیرونی سازشوں کی کوشش کرنے والے سب سے زیادہ فعال گروہوں میں سے ایک قرار دیا۔"

نئے امریکی ٹیرف پاکستان کے لیے خطرہ یا سنہری موقع؟

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان اور آئی ایس آئی ایس کے درمیان دشمنی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے، جس کی وجہ بہت سے جنگجو پاکستان-افغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقوں میں جانے پر مجبور ہوئے ہیں اور پاکستان نے کئی دہشت گردوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔

گرفتار ہونے والوں میں جعفر نامی ایک مبینہ شدت پسند بھی ہے، جس کی شناخت 2021 میں کابل ہوائی اڈے کے ایبی گیٹ پر ہونے والے بم دھماکے کے ایک اہم ملزم کے طور پر کی گئی تھی۔

جنرل کوریلا نے قانون سازوں سے کہا کہ پاکستان کے، "آرمی چیف نے مجھے براہ راست فون کیا اور بتایا کہ 'میں نے اسے پکڑ لیا ہے۔ میں اسے واپس امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہوں، براہ کرم سیکریٹری دفاع اور صدر کو مطلع کریں۔

"

امریکی جنرل نے پاکستان کی کامیابیوں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں آئی ایس آئی ایس اب بھی سرگرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ "وہ زیادہ تر پاکستان کے سرحدی علاقوں تک محدود ہیں، کبھی کبھار افغانستان میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔" انہوں نے بتایا کہ امریکہ گروپ کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

رواں برس کے اوائل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی انسداد دہشت گردی میں پاکستان کے کردار کا اعتراف کیا تھا۔ مارچ میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے پہلے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جعفر کی گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا، "میں خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ اس عفریت کی گرفتاری میں مدد کی۔"

ادارت: جاوید اختر

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات