اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جون 2025ء) یہ منصوبہ بین الاقوامی شمال-جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور (INSTC) کی مشرقی شاخ کا حصہ ہے، جو جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا، روس اور یورپ سے منسلک کرے گا۔
ایک نئی راہداری کا آغاز
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ریل سروس علاقائی تجارت اور جغرافیائی روابط کو مضبوط کرنے کی جانب اہم قدم ہے۔
ریلوے حکام کا کہناہے کہ یہ روٹ محفوظ اور موثر ہے، جو سمندری راستوں کے مقابلے میں وقت اور لاگت بچاتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز اسلام آباد کے سینٹرل ایشیا پروگرام کے سربراہ حمزہ رفعت حسین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ خطے کی بدلتی تجارتی اور جغرافیائی سیاسی حرکیات کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ سرحدوں کے پار لاجسٹکس اور سفارتی ہم آہنگی کے چیلنجز منصوبے کی کامیابی کے لیے اہم ہیں۔(جاری ہے)
زیادہ مواقع یا خطرات؟
ایشین بزنس فورم کے صدر خرم شہزاد نے اس منصوبے کو ایک "تاریخی پیش رفت" قرار دیا، جو پاکستان کو ٹرانزٹ حب میں تبدیل کر سکتا ہے اور گوادر بندرگاہ کی اہمیت بڑھا سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ ریل سروس سمندری راستوں (30-40 دن) کے مقابلے میں سامان کو پندرہ سے اٹھارہ دن میں روس پہنچا سکتی ہے۔
تاہم، ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے منصوبے کی فزیبلٹی پر تحفظات کا اظہار کیا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ ایران جیسے حساس خطے سے گزرنے والے روٹ کے لیے جامع تکنیکی اور مالیاتی جائزہ ضروری ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی فزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، ورنہ یہ منصوبہ کاغذی کارروائی تک محدود رہ سکتا ہے۔تجارتی اشیا اور مواقع
اس ریل سروس کے ذریعے ملبوسات، چمڑے کی مصنوعات، کپڑا، طبی آلات، چاول، مصالحہ جات، کھیلوں کا سامان اور دیگر اشیا روس برآمد کی جائیں گی۔
یہ اشیا زراعت، صنعت اور صحت کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو فروغ دیں گی۔ ایشین بزنس فورم کے مطابق، یہ منصوبہ لاجسٹکس، گودام سازی اور مال برداری کے شعبوں میں ہزاروں ملازمتیں پیدا کرے گا اور پاکستانی کاروباری برادری کو یوریشین منڈیوں تک کم لاگت رسائی دے گا۔لاہور سے آغاز ایک مناسب یا متنازع فیصلہ؟
ڈاکٹر بنگالی نے لاہور سے سروس شروع کرنے پر سوال اٹھایا۔
ان کا کہنا ہے کہ کراچی یا گوادر جیسے بندرگاہی شہر زیادہ موزوں ہوتے۔ ریلوے حکام نے وضاحت کی کہ یہ فیصلہ نجی خریدار کی درخواست پر کیا گیا اور گوادر میں فی الحال ریلوے ٹریک موجود نہیں ہے۔ کراچی سمیت دیگر راستوں کے اختیارات بھی تاجروں کو دیے گئے تھے۔شفافیت کا سوال
ڈاکٹر بنگالی نے مطالبہ کیا کہ حکومت فزیبلٹی رپورٹ کو عوام کے سامنے لائے تاکہ منصوبے کے فوائد، لاگت اور خطرات واضح ہوں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ چار سے زائد ممالک کی سرحدوں سے گزرنے والے روٹ میں کسی ایک مقام پر رکاوٹ سے سپلائی چین متاثر ہو سکتی ہے۔ اسی طرح حمزہ رفعت نے بھی کہا کہ واضح شراکت داری اور سفارتی ہم آہنگی کے بغیر یہ منصوبہ ناکام ہو سکتا ہے۔بحری راستوں پر انحصار میں کمی
حمزہ رفعت کے مطابق یہ ریل سروس روایتی بحری راستوں پر انحصار کم کرے گی، جو مہنگے اور طویل ہیں۔
یہ پاکستان کو وسطی ایشیا اور یوریشیا کے ساتھ جوڑ کر تجارت کو تیز اور کم لاگت بنائے گی۔ اس سے علاقائی روابط اور تجارتی تنوع کو فروغ ملے گا۔دریں اثنا ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کے باعث اس ریل سروس کی روانگی متاثر بھی ہو سکتی ہے لیکن پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال بہتر ہونے پر 22 جون کو یہ سروس شروع ہو جائے گی۔
ادارت: امتیاز احمد