صاف پانی کی فراہمی سے 68 فیصد بیماریاں روکی جا سکتی ہیں، وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال کا قومی ہیلتھ کانفرنس سے خطاب

منگل 24 جون 2025 16:43

صاف پانی کی فراہمی سے 68 فیصد بیماریاں روکی جا سکتی ہیں، وفاقی وزیر صحت ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 جون2025ء) وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے، پاکستان سال 2030ء میں بلحاظ آبادی دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا، بھارت، بنگلہ دیش اور ایران میں نظام صحت اور آبادی پر کنٹرول بہتر ہے، ہم آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیا سے بھی آگے نکل رہے ہیں۔

امراض کی روک تھام کے لئے تیاری اور مضبوط نظام صحت کی پہلی قومی ہیلتھ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر صحت نے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 68 فیصد بیماریاں گندا پانی پینے سے پھیلتی ہیں، صاف پانی کی فراہمی سے 68 فیصد بیماریاں روکی جا سکتی ہیں، ملک میں سیوریج ٹریٹمنٹ کا کوئی موثر منصوبہ موجود نہیں، گلگت کی چوٹی سے کراچی کے ساحل تک سیوریج پینے کے پانی میں شامل ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے پاکستان میں صحت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہیپاٹائٹس سی اور ذیابیطس کے مریضوں میں سرفہرست ملک بن چکا ہے، پاکستان کے 40 فیصد بچے غذائیت کی قلت کے باعث کمزور ہیں، ان کی نشوونما نہیں ہو پاتی، پولیو صرف افغانستان اور پاکستان میں رہ گیا ہے، 2 کروڑ 60 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں۔ ہسپتالوں کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ پمز و دیگر کسی ہسپتال جائیں تو لگتا ہے ابھی جلسہ ختم ہوا ہے۔

پمز ہسپتال چند لوگوں کے لیے بنا تھا، آج لاکھوں لوگ وہاں علاج کرا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کہا جاتا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ ان اشاریوں کے ساتھ ہیلتھ کیئر کی طلب کو پوری کرنا ممکن نہیں ہے۔ مصطفیٰ کمال نے اس بات پر زور دیا کہ آبادی میں کمی کو قومی پالیسی کا حصہ بنانا ہوگا، پورا ماحول آبادی کو مریض بنانے کے لئے سرگرم ہے اور کہا جاتا ہے ہسپتال بنا دیں، پورا نظام صحت کی نگہداشت کے بجائے صحت خراب کرنے پر لگا ہے، اربوں ڈالرز سے بھی ہسپتال بنا لیں، جب تک پرہیز نہیں ہو گا علاج نہیں ہو سکے گا۔

میری حتی الامکان کوشش ہوگی کہ انسان کو بیمار پڑنے سے بچایا جائے۔ وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے ڈیجیٹل ہیلتھ اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مریضوں کا یونیورسل میڈیکل ریکارڈ موجود نہیں ہے۔نیشنل میڈیکل ریکارڈ نہ ہونے سے مریض کی ہسٹری جانچنا ممکن نہیں، یونیورسل میڈیکل ریکارڈ سسٹم لانچ کر رہے ہیں۔شناختی کارڈ نمبر کو ہی میڈیکل ریکارڈ نمبر بنایا جائے گا۔ٹیلی میڈیسن متعارف کروانے سے ہسپتالوں میں دبائو کم ہو گا۔پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹر کو مضبوط بنایا جا رہا ہے۔