Live Updates

ایران کے ساتھ اگلے ہفتے مذاکرات، امریکی صدر

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 26 جون 2025 11:40

ایران کے ساتھ اگلے ہفتے مذاکرات، امریکی صدر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جون 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے تیزی سے خاتمے کو سراہتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن اگلے ہفتے ایرانی حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں ممکنہ طور پر تہران سے اپنے جوہری عزائم کو ختم کرنے کے معاہدے کا خواہاں ہے۔

ایرانی امریکی جوہری مذاکرات کن نکات پر اختلافات کا شکار؟

ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کے بنکر بسٹر بموں نے ایران کی زیر زمین فردو جوہری تنصیب کو’مکمل طور پر تباہ‘ کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’کیا یہ نقصان شدید تھا؟ جی ہاں، یہ واقعی بہت شدید تھا۔ اس نے (ایرانی جوہری تنصیبات کو) مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔‘

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس اقدام نے جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے اسے ’’سب کی فتح‘‘ قرار دیا۔

ایران-اسرائیل تنازعہ: مذاکرات بحال ہونا چاہییں، یورپی یونین

امریکی صدر نے ہیگ میں نیٹو اجلاس کے موقعے پر اس جنگ بندی کے بارے میں کہا کہ یہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور اب حالات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ٹرمپ نے کہا، ’’ہم شاید کوئی معاہدہ کر سکتے ہیں، مجھے نہیں معلوم۔‘‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا۔ ’’میں اسے اس طرح دیکھتا ہوں کہ انہوں (اسرائیل اور ایران) نے لڑائی کی، جنگ اب ختم ہو چکی ہے۔‘‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ اگلے ہفتے ایران اور امریکہ کے حکام کے درمیان بات چیت ہو سکتی ہے، تاہم ایران نے اس حوالے سے تصدیق نہیں کی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حالیہ امریکی حملوں کو ہیروشیما اور ناگاساکی پر کیے گئے حملوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا، ’’اگر آپ ہیروشیما کو دیکھیں، اگر آپ ناگاساکی کو دیکھیں تو آپ جانتے ہیں کہ ان حملوں نے بھی ایک جنگ ختم کی تھی۔ یہ جنگ ایک مختلف انداز میں ختم ہوئی لیکن تباہی انتہائی شدید تھی۔‘‘

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق بدھ کو ملک کے قانون سازوں نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔

’ایران کو جوہری طاقت بننے نہیں دیں گے‘

ایران اور اسرائیل اب تک کے سب سے شدید تصادم کے بعد معمول کی زندگی دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسرائیل کی جوہری ایجنسی کا اندازہ ہے کہ اسرائیلی حملوں نے ’’ایران کی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت کو کئی سالوں تک پیچھے چھوڑ دیا ہے‘‘۔ وائٹ ہاؤس نے بھی اسرائیلی اندازے کی تائید کی ہے حالانکہ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسرائیلی انٹیلیجنس پر بھروسہ نہیں کر رہے ہیں۔

ادھر ایران کی حکومت کا کہنا تھا کہ اس نے اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے ’’ضروری اقدامات‘‘ کیے ہیں۔

ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ محمد اسلمی نے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا، ’’(سہولیات) کو دوبارہ شروع کرنے کے منصوبے پہلے سے تیار کر لیے گئے ہیں، اور ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ پیداوار اور خدمات میں خلل نہ پڑے۔

‘‘

ٹرمپ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ تہران مفاہمت کا سفارتی راستہ اختیار کرے گا۔ ’’میں آپ کو بتاؤں، آخری چیز جو وہ کرنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ ان کے پاس جو کچھ بچا ہے اسے افزودہ کرنا ہے، وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔‘‘

امریکی صدر نے متنبہ کیا کہ اگر ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ بنانے کی کوشش کی تو، ’’ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

نمبر ایک عسکری قوت کے طور پر ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے۔‘‘

ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے، امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھی اندازہ لگایا ہے کہ تہران فعال طور پر بم بنانے کی کوشش نہیں کر رہا، تاہم اسرائیلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایران جلد ہی جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔

’ایران اسرائیل دوبارہ جنگ کرسکتے ہیں‘

اسرائیل کی بمباری کی مہم، جو 13 جون کو ایک حیرت انگیز حملے کے ساتھ شروع کی گئی، نے ایران کی عسکری قیادت کے اعلیٰ عہدیداروں کا صفایا اور سرکردہ ایٹمی سائنسدانوں کو ہلاک کر دیا۔

ایران نے میزائلوں سے اس کا جواب دیا جس نے پہلی بار اسرائیل کے دفاع کو بڑی تعداد میں نشانہ بنایا۔

ایرانی حکام نے بتایا کہ ایران میں 627 افراد ہلاک اور تقریباً 5000 زخمی ہوئے۔ اسرائیل نے اپنے ملک میں اٹھائیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایران کی جوہری تنصیبات اور میزائلوں کو تباہ کرنے کے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔

جب کہ ایران نے دعویٰ کیا کہ اس نے اسرائیل کے دفاع میں گھس کر اسے جنگ کے خاتمے پر مجبور کیا ہے۔

اسی دوران امریکہ نے بھی ایران کی تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، جس کے بعد تہران نے قطر میں امریکی فوجی اڈے پر میزائل داغے۔

ٹرمپ نے کہا کہ دونوں فریق تھک چکے ہیں لیکن تنازع دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

Live ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات