کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 جون2025ء)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد جاوید بلوانی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف بی آر نے ملک بھر سے تاجر تنظیموں اور چیمبرز آف کامرس کے صدور اور تجارتی تنظیموں کے رہنماؤں پر مشتمل بزنس اناملیز کمیٹی کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔
کے سی سی آئی نے اپنے ممبران کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد فنانس بل 2025-26 میں پیش کردہ ظالمانہ اقدامات بالخصوص سیلز ٹیکس ایکٹ میں سیکشن 37 اے اے کے اضافے کے خلاف کراچی بھر میں بینرز لگا کر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کر دیا ہے ۔ایک بیان میں جاوید بلوانی کہا کہ یہ صرف آغاز ہے۔ احتجاج ابھی شدت اختیار کرے گا، پریس کانفرنسز کی جائیں گی نہ صرف کے سی سی آئی بلکہ پاکستان کے دوسرے بڑے چیمبرز بھی اس میں شریک ہوں گے۔
(جاری ہے)
اور اگر ہمارے مطالبات کو نظرانداز کیا گیا تو ہمارے پاس شہر بھر یا ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ انہوں نے پوری تاجر برادری خاص طور پر چھوٹے تاجروں سے اپیل کی کہ اگر ایسی کال دی جاتی ہے تو وہ متحد ہو کر ہمارے ساتھ ڈتے رہیں۔انہوں نے وزیر خزانہ کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ عوامی اور کاروبار دوست ہے یہ دعوے زمینی حقائق کے بر عکس ہیں۔
تمام صنعتکار اور برآمد کنندگان اس بات پر متفق ہیں کہ اس بجٹ میں کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی گئی۔ وزیر خزانہ کیسے ایسے دعوے کر سکتے ہیں جب تاجر برادری ان دعوؤں کی حمایت نہیں کرتی انہوں نے پاکستان کے کاروباری ماحول کو سنگین قرار دیا جہاں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، بجلی و گیس کی قلت، پانی کی عدم فراہمی اور ٹیکس ریفنڈز کی تاخیر شامل ہیں جنہوں نے مالیاتی بحران کو جنم دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ برآمدات حکومت کی کسی پالیسی کی وجہ سے نہیں بڑھ رہیں بلکہ ہمارے کاروباری اداروں کی استقامت اور عالمی ساکھ کی وجہ سے برقرار ہیں۔ درحقیقت ہمارے بین الاقوامی خریدار ہمیں ایسے ممالک میں کاروبار منتقل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں جہاں حالات مستحکم اور کاروبار دوست ہیں۔ انہوں نے متنازعہ شق سیکشن 37 اے اے کو ایک ظالمانہ قانون قرار دیا جو انصاف کے تمام اصولوں سے متصادم ہے۔
یہ سیکشن ایف بی آر کو محض شک کی بنیاد پر بینک اکاؤنٹ منجمد کرنے، فنڈز ضبط کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کا اختیار دیتا ہے چاہے وہ دہائیوں سے ٹیکس کی ادائیگی کرتے آرہے ہوں۔کیا یہ انصاف ہی ایسے ظالمانہ ماحول میں کون کاروبار کرے گا انہوں نے بتایا کہ بہت سے تاجروں نے کے سی سی آئی سے درخواست کی ہے کہ وہ ایک کمیٹی بنائے جو انہیں یہ رہنمائی فراہم کرے کہ وہ اپنے کاروبار کو دیگر ممالک میں کیسے منتقل کر سکتے ہیں جہاں وہ محفوظ اور منصفانہ ماحول میں کام کر سکیں۔
لیکن ہم ابھی بھی یہاں موجود ہیں۔ ہم یہیں رہنا چاہتے ہیں، ہم تعاون کرنا چاہتے ہیں اور ہم وزیراعظم اور حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہماری آواز سنیں اور ہمیں وہ اعتماد دیں جس کی ہمیں صحیح کاروباری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔جاوید بلوانی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف کراچی کی شکایت نہیں ہے۔ فیصل آباد، لاہور، سیالکوٹ سمیت تمام بڑے برآمدی مراکز بھی یہی تحفظات ظاہر کر رہے ہیں۔
یہ شہر جن میں کراچی بھی شامل ہے پاکستان کی بیشتر صنعتوں اور بڑے ٹیکس دہندگان کا گھر ہیں لیکن انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور عوام نے ہمارا ساتھ دیا تو ہم ہڑتال کی کال دینے سے گریز نہیں کریں گے۔انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کاروباری طبقے کے حقیقی نمائندوں کو یکسر نظر انداز کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت چیمبرز اور ایسوسی ایشنز سے مشاورت کرنے کی بجائے صرف اپنے پسندیدہ چند افراد سے ملاقات کرتی ہے۔
حکومت ان لوگوں کو سننے سے انکار کرتی ہے جو درحقیقت چھوٹے اور بڑے تمام کاروباریوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔انہوں نے ایف بی آر کی جانب سے بزنس اینوملیزکمیٹی کے اجلاس میں بدانتظامی پر بھی شدید تنقید کی اور اسے افسوسناک اور توہین آمیز قرار دیا۔ اجلاس میں تاجر رہنماؤں کی موجودگی کے باوجود ایف بی آرحکام نے اہم سفارشات سننے کے لئے شرکت نہیں کی۔
ایک مناسب زوم لنک کے بجائے ایک ناقص سیسکو لنک شیئر کیا گیاجس کے نتیجے میں تکنیکی خلل آیا اور شرکاء کو آڈیو سمجھنے یا پریزنٹیشن سلائیڈز دیکھنے میں مشکلات پیش آئیں۔انہوں نے بتایا کہ ممبر آئی آر بہت تاخیر سے اجلاس میں شامل ہوئے۔ وہ بمشکل پانچ منٹ بولے اور پھر غائب ہو گئے جو حکومت کی عدم سنجیدگی کو واضح کرتا ہے۔اس سے بھی بدتر اجلاس میں شیئر کی گئی اناملیز کی فہرست میں چیمبرز کے اٹھائے گئے مسائل شامل نہیں تھے بلکہ صرف چند منتخب افراد کی تجاویز ہی پیش کی گئیں۔
اس تماشے سے بیزار ہو کر اکثر اراکین اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے اور استعفے جمع کروا دیے اور یہ فیصلہ کیا کہ یہ وقت کا ضیاع تھا۔ جاوید بلوانی نے سخت انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے پورے کیریئر میں ایف بی آر کی اتنی متکبرانہ اور آمرانہ رویہ نہیں دیکھا یہاں تک کہ مارشل لاء کے دور میں بھی نہیں۔ یہ جنرل مشرف یا جنرل ضیاء کے دور سے بھی بدتر محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اب جمہوریت میں نہیں رہ رہے۔کاروباری طبقہ اب خاموش نہیں بیٹھے گا۔ ہم عزت اور مشاورت کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہم تمام اناملیز کو فوری درست کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔