ویتنام پاکستان کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کاخواہشمند

وقت آگیا ہے دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے،فام آینہ توان

پیر 30 جون 2025 18:35

!کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جون2025ء)ویتنام کے سفیر فام آینہ توان نے پاکستان کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں ویتنام کی جانب سے گہری دلچسپی کا ظاہر کی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت ایک ارب ڈالر تک پہنچنے کو ہے۔انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے پہلے دورے کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ تجارتی حجم تقریباً 850 ملین ڈالر ہے اور دونوں ممالک مشترکہ کوششوں سے اس سال یا اگلے سال کے آخر تک ایک ارب ڈالر کے ہدف کو حاصل کرنے یا اس سے تجاوز کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

اس موقع پر ویتنام کے تجارتی مشن کی ہیڈ نیگوین تھی دیپ ہا، کے سی سی آئی کے سینئر نائب صدر ضیاء العارفیں، نائب صدر فیصل خلیل احمد، سابق صدر مجید عزیز اورمنیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

ویتنام کے سفیر نے ادارہ جاتی روابط کو مضبوط بنانے اور اقتصادی تعاون کو مزید مستحکم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے تجویز دی کہ ویتنام چیمبر اور کراچی چیمبر کے درمیان تعاون بڑھانے، تجارتی معلومات کے بروقت تبادلے، کاروباری وفود کے باقاعدہ تبادلے کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کے تجارتی ٹریڈ اور نمائشوں میں شرکت سے دونوں ممالک تجارتی و سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کرسکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اپنی مصنوعات کو وسیع تر مارکیٹ تک رسائی دے سکتے ہیں۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ویتنام اور پاکستان کے اقتصادی تعلقات کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے۔ انہوں نے اعتماد کا اظہار کیا کہ کے سی سی آئی کی قیادت کے تعاون اور کراچی کی متحرک تاجر برادری کی شراکت سے دونوں ممالک اقتصادی تعاون کو کئی گنا بڑھا سکیں گے۔انہوں نے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی سعودی عرب میں گزشتہ سال ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں وزرائے اعظم نے دو طرفہ تجارتی وکاروباری تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

انہوں نے پاکستان میں اپنے تجربات کا تبادلہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ انہوں نے صرف دس ماہ قبل اپنی میں ذمہ داری سنبھالی ہے لیکن یہ عرصہ ملک کے لوگوں اور کاروباری ماحول کو سمجھنے کے لیے کافی رہا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی تاجر برادری کی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ اپنے دورے کے دوران انہیں لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد اور اب کراچی چیمبر کا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ویتنام اور پاکستان کے درمیان 1972 سے طویل مدتی تعلقات ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک اپنے سفارتی تعلقات کے 53 سال مکمل کر رہے ہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ صدر پرویز مشرف 2003 میں ویتنام کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی صدر تھے جس کے بعد 2004 میں ویتنام کے صدر نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا۔ اس کے بعد سے نہ صرف سیاسی سطح پر بلکہ عوامی اور کاروباری سطح پر بھی تعلقات مستحکم ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے عوامی روابط کو فروغ دینا اور تاجربرادری کے درمیان تعاون بڑھانا ویتنامی سفارتخانے کی اولین ترجیح ہے۔دو طرفہ تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو مزید وسعت کی بے پناہ صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔کے سی سی آئی کے سینئر نائب صدر ضیاء العارفین نے ویتنام کے سفیر کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاکستان اور ویتنام کے درمیان دو طرفہ تجارت و اقتصادی تعاون کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے حالیہ تجارتی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مالی سال 2024 میں پاکستان کی ویتنام کو برآمدات تقریباً 356 ملین ڈالر تھیں جبکہ ویتنام سے درآمدات تقریباً 285 ملین ڈالر رہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کو تجارتی سرپلس حاصل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس مثبت پیش رفت کے باوجود ہمارے تجارتی تعلقات کو منظم اور اسٹریٹجک انداز میں بڑھانے کی بھرپور گنجائش موجود ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان کی مقامی صنعتیں بالخصوص ٹیکسٹائل، کپڑے، زراعت، کیمیکلز اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار (ایس ایم ایز) ویتنام کے صنعتی جدیدیت، تکنیکی ترقی اور مؤثر ویلیو چینز کے تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔مشترکہ منصوبے اور تکنیکی شراکت داری مقامی پیداوار کو بڑھانے، درآمدات پر انحصار کم کرنے اور عالمی مسابقت کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ویتنام آئی ٹی، معدنیات، سمندری خوراک اور سیاحت جیسے شعبوں میں بھی تعاون بڑھا سکتے ہیں۔ویتنام سمندری خوراک برآمد کرنے کے حوالے سے ایک بڑا ملک بن چکا ہے اور پاکستان اپنے بے پناہ لیکن کم استعمال ہونے والے آبی وسائل کی مدد سے مشترکہ منصوبے قائم کر سکتا ہے تاکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور برآمدات میں اضافہ کیا جا سکے۔

انہوں نے پاکستان کی اہم برآمدی مصنوعات جیسے کہ کاٹن فیبرک، گھریلو ٹیکسٹائل، ملبوسات، مصنوعی ٹیکسٹائل، ڈینم، چاول، تیل کے بیج، سبزیاں، پھل، کیمیکلز، چمڑے اور پلاسٹک کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ روایتی ماکیٹوں کے علاوہ نئی ماکیٹوں تک رسائی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آسیان 4 ٹریلین ڈالر کی مارکیٹ ہے لیکن پاکستان کی تجارت زیادہ تر انڈونیشیا اور ملائیشیا تک محدود ہے۔ ویتنام کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنا ہمارے لیے وسیع آسیان خطے میں رائیں کھول سکتا ہے۔