اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 جولائی 2025ء) گزشتہ برس بنگلہ دیش میں ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ وہ بنگلہ دیش چھوڑ کر بھارت چلی گئی تھیں، جہاں وہ اب تک پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اس تبدیلی کے بعد بنگلہ دیش کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی آئی جبکہ سفارتی طور پر چین کی طرف جھکاؤ میں اضافہ ہوا۔
نگران حکومت کو اب آئندہ سال کے انتخابات سے قبل بڑھتی ہوئی سیاسی پولرائزیشن، اور بیرونی دخل اندازی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے نئی دہلی میں موجود تجزیہ کار پروین ڈونتھی کے بقول، ''ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں شاید پہلے کبھی اتنی شدید تناؤ نہیں آیا۔
(جاری ہے)
‘‘
بغاوت کے دوران شیخ حسینہ فرار ہو کر ہندوستان چلی گئی تھیں۔
ڈھاکہ کی عبوری حکومت متعدد بار ان کی حوالگی کا مطالبہ کر چکی ہے تاہم بھارتی انکار کی وجہ سے ڈھاکہ میں ناراضگی میں اضافہ ہوا ہے۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے مطابق نئی دہلی کی جانب سے حسینہ واجد کی حمایت کی وجہ سے ''غصہ بھارت کی طرف منتقل ہو گیا ہے‘‘۔
حوالگی کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کی ایک عدالت پہلے ہی توہین عدالت کے الزام میں انہیں چھ ماہ کی قید کی سزا سنا چکی ہے۔
بنگلہ دیشی وزارت خارجہ کے سربراہ محمد توحید حسین نے موجودہ ''تعلقات کو اب ری ایڈجسٹمنٹ مرحلے میں‘‘ قرار دیا ہے۔
نوبل انعام یافتہ بنگلہ دیشی عبوری رہنما محمد یونس کا پہلا سرکاری دورہ چین تھا جس میں انہوں نے 2.1 بلین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کو یقینی بنایا۔
چین نے بنگلہ دیشی حزب اختلاف کے رہنماؤں سے بھی بات چیت کی ہے۔
بی این پی کے مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے کہا ہے کہ بیجنگ ''خلوص، ثابت قدمی اور محبت اور کے ساتھ آئندہ حکومت کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ہے۔‘‘بنگلہ دیش کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اضافہ
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بھی مضبوط کیا ہے جس سے بھارت پریشان ہے۔ مئی میں بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان مہلک جھڑپیں ہوئیں۔
اس کے ایک ماہ بعد بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے حکام نے چین میں اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاکن کے مطابق تینوں ممالک نے صنعت، تجارت، تعلیم اور زراعت کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے استاد عبید الحق نے بھارت کی جانب سے طبی سیاحت پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد صحت کی دیکھ بھال میں چین کی حمایت کا ذکر کیا: ''جب بھارت نے مریضوں کے علاج کے لیے مشکلات کھڑی کیں تو چین نے بنگلہ دیشی مریضوں کے لیے تین ہسپتال مختص کر دیے۔
‘‘1971ء میں ڈھاکہ کی جنگ آزادی کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان الگ ہو گئے تھے، تاہم اب گزشتہ برس سے ان دونوں ممالک کے درمیان سمندری راستے سے تجارت شروع ہو گئی ہے جبکہ براہ راست پروازوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
پراوین ڈونتھی کے مطابق بھارت کی قیادت ڈھاکہ کو ایک ایسی حکومت کے تحت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جسے وہ اسلام پسند اور بھارت کے لیے مخالفت رکھنے والی سمجھتا ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔امریکی محصولات سے متاثر ہونے والا بنگلہ دیش واشنگٹن کے ساتھ قریبی تعلقات کا خواہاں ہے اور بوئنگ طیاروں اور امریکی اجناس کی خریداری کی تجویز دے رہا ہے۔ یونس نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
تاہم بنگلہ دیش کو علاقائی تناؤ کا بدستور سامنا ہے۔ پراوین ڈونتھی کا خیال ہے کہ بھارت کی طرف سے ''اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ڈھاکہ میں موجودہ حکومت کے بارے میں ان کا موقف تبدیل ہوگا۔‘‘
ان کے بقول، ''تعاون کرنے کے بجائے اسے (بنگلہ دیشی حکومت کو) کمزور کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔‘‘
ادارت: عاطف توقیر