جنوبی ایشیا میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے میں ریکارڈ کامیابی، یونیسف

یو این جمعہ 18 جولائی 2025 03:30

جنوبی ایشیا میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے میں ریکارڈ کامیابی، یونیسف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 جولائی 2025ء) جنوبی ایشیا میں گزشتہ سال بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے حوالے سے ریکارڈ کامیابی حاصل ہوئی جو حکومتوں، طبی عملے اور مقامی لوگوں کی جانب سے بچوں کی صحت کو ترجیحی اہمیت دینے کی علامت ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2024 میں جنوبی ایشیا کے ممالک میں جتنی بڑی تعداد میں بچوں کو قابل انسداد بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگائے گئے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

خطے کے لیے یونیسف کے ریجنل ڈائریکٹر سنجے وجے سیکرا نے اس پیش رفت کو باعث فخر قرار دیتے ہوئے کہا ہے حفاظتی ٹیکوں (ویکسین) کی بدولت بچوں کی صحت و زندگی اب پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔

(جاری ہے)

تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اب بھی لاکھوں بچے حفاظتی ٹیکوں سے مکمل یا جزوی طور پر محروم ہیں جنہیں تحفظ دینے کے لیے تیزرفتار کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ ہر بچہ صحت کی سہولت سے بروقت مستفید ہو سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں دیہی علاقوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہر بچے کو اپنی زندگی کے ابتدائی برسوں میں اچھی صحت کا حق مہیا کیا جا سکے۔

خناق، تشنج اور کالی کھانسی کی روک تھام

رپورٹ کے مطابق، 2024 میں جنوبی ایشیا کے 92 فیصد بچوں کو خناق، تشنج اور کالی کھانسی (ڈی ٹی پی) کی ویکسین کی تین خوراکیں دی گئیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں دو فیصد بڑی تعداد ہے جبکہ اس ویکسین کی پہلی خوراک لینے والوں کی شرح بھی 93 سے بڑھ کر 95 فیصد تک پہنچ گئی۔

گزشتہ سال خطے میں ویکسین سے پوری طرح محروم رہنے والے بچوں کی تعداد میں 27 فیصد کمی آئی جو 25 لاکھ سے کم ہو کر 18 لاکھ رہ گئی۔

انڈیا نے اس میدان میں غیرمعمولی کارکردگی دکھائی جہاں ایسے بچوں کی تعداد 16 لاکھ سے 9 لاکھ پر آ گئی ہے۔ پاکستان میں 87 فیصد بچوں کو 'ڈی ٹی پی' کی تیسری خوراک دی گئی جو اب تک ملک میں ان کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ نیپال میں یہ کمی 52 فیصد رہی جہاں اس ویکسین سے محروم بچوں کی تعداد 23 ہزار سے کم ہو کر 11 ہزار تک آ گئی جبکہ افغانستان میں بچوں کو ویکسین کی فراہمی میں ایک فیصد کمی دیکھی گئی۔

UN Photo/Mark Garten

خسرہ کے خلاف نمایاں کامیابی

جنوبی ایشیا میں خسرہ کے خلاف ویکسین لینے والے بچوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔

گزشتہ سال 93 فیصد بچوں کو اس بیماری کے خلاف پہلی اور 88 فیصد کو دوسری خوراک دی گئی۔ اس طرح خسرہ سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد 90 ہزار سے کم ہو کر تقریباً 55 ہزار رہ گئی۔ اگرچہ یہ بڑی پیش رفت ہے مگر خسرہ کی وبا کو روکنے کے لیے 95 فیصد بچوں کا ویکسین کی دوسری خوراک لینا ضروری ہے۔

جنوبی ایشیا کے لیے 'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر برائے پروگرام مینجمنٹ ڈاکٹر تھاکسافون تھامارنگسی نے کہا ہے کہ خطے میں حفاظتی ٹیکے لگوانے والے بچوں کی تعداد میں کووڈ وبا سے پہلے کے مقابلے میں اضافہ خوش آئند پیش رفت ہے۔

رحم کے سرطان سے بچانے کے لیے دی جانے والی 'ایچ پی وی' ویکسین لینے والی لڑکیوں کی تعداد میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔ گزشتہ سال جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ شرح 2 فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد تک جا پہنچی۔ بنگلہ دیش میں 71 لاکھ لڑکیوں کو یہ ویکسین دی گئی۔ بھوٹان، مالدیپ اور سری لنکا میں بھی ان لڑکیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ نیپال نے قومی سطح پر چلائی جانے والی مہم کے تحت 14 لاکھ سے زیادہ لڑکیوں کو 'ایچ پی وی' ویکسین دی جبکہ انڈیا اور پاکستان میں یہ پروگرام رواں سال شروع کیے جائیں گے۔

حکومتوں کے لیے سفارشات

حکومتوں کی سنجیدگی، صحت کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری، نچلی سطح پر کام کرنے والے طبی عملے کی محنت اور مقامی لوگوں کا تعاون اس کامیابی کی بڑی وجوہات ہیں۔ علاوہ ازیں، عطیہ دہندگان اور مقامی شراکت داروں کا مسلسل تعاون، ڈیجیٹل ذرائع کا استعمال اور بہتر نگرانی بھی اس ضمن میں مددگار ثابت ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق، اب بھی خطے میں تقریباً 29 لاکھ بچے ویکسین سے جزوی یا کلی طور پر محروم ہیں۔ یونیسف اور 'ڈبلیو ایچ او'نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ تمام بچوں کو قابل انسداد بیماریوں سے تحفظ دینے کے عزم کو برقرار رکھیں۔ اس مقصد کے لیے مالی وسائل میں اضافے، زیادہ سے زیادہ تعداد میں لڑکیوں کو 'ایچ پی وی' ویکسین کی فراہمی اور ہر طرح کے حفاظتی ٹیموں سے محروم بچوں تک رسائی کے لیے کوششیں تیز کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

دونوں اداروں کا کہنا ہے کہ خسرہ سمیت ایسی تمام بیماریوں کی نگرانی کے نظام کو بھی مضبوط بنانا ضروری ہے جنہیں حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔

یونیسف نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں حاصل ہونے والی ان کامیابیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتماعی کوششوں کی بدولت بچوں کے لیے نمایاں نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ کامیابیوں کا یہ تسلسل برقرار رکھنا لازم ہے تاکہ ہر بچہ صحت مند زندگی کا آغاز کر سکے۔