خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس ملتوی، حلف برداری نہ ہوسکی، سینیٹ الیکشن کھٹائی میں پڑگئے

اپوزیشن لیڈر کا پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کا اعلان………حلف ہوگا، آئینی تقاضا پورا کیا جائیگا، فیصل کنڈی اپوزیشن کے ارکان کا اسپیکر کی ڈائس کی سامنے اجلاس ملتوی کرنے پر احتجاج ،مخصوص نشستوں کیلئے نامزد امیدوار اسمبلی میں موجود رہے

اتوار 20 جولائی 2025 17:40

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جولائی2025ء)خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے پر 24 جولائی تک ملتوی کر دیا گیا، مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی حلف برداری کی تقریب نہ ہوسکی جس کے بعد سینیٹ کے الیکشن کھٹائی میں پڑ گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس 9 بجے طلب کیا گیا تھا، جو 2 گھنٹے سے زائد کی تاخیر سے شروع ہوا، مخصوص نشستوں پراراکین کی حلف برداری ایجنڈے کا حصہ تھی، اجلاس شروع ہوتے ہی رکن اسمبلی شیر علی آفریدی کی جانب سے کورم کی نشاندہی کر دی گئی، اسپیکر نے گھنٹیاں بجائیں لیکن ارکان ایوان میں نہیں آئے جس کے بعد انہوں نے اجلاس 24 جولائی تک ملتوی کر دیا۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں 25 مخصوص نشستوں کے اراکین نے حلف اٹھانا تھاجن میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی ارکان شامل ہیں، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) اور مسلم لیگ (ن) کے 7، 7، پیپلز پارٹی کے 4، اے این پی کے 2 اور پی ٹی آئی پی کے ایک رکن کو حلف اٹھانا تھا۔

(جاری ہے)

اسپیکر نے رولنگ دی کہ اسمبلی میں ارکان کی تعداد پوری نہیں ہے، اپوزیشن کے ارکان نے اسپیکر کی ڈائس کی سامنے اجلاس ملتوی کرنے پر احتجاج کیا۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے لیے نامزد امیدوار اسمبلی میں موجود رہے۔قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے خیبرپختونخوا اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا، یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں کیا گیا۔پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کہا گیا کہ ہم ان مخصوص نشستوں کو مان ہی نہیں رہے، اپوزیشن کو مخصوص نشستیں دینا ہمارے حق پر ڈاکہ ہے، فیصلہ کیا گیا کہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی کورم کی نشاندہی کی جائے گی۔

پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اسمبلی میں کورم کی نشاندہی کی ذمہ داری ایم پی اے عبدالغنی کے حوالے کردی گئی۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد نے خصوص نشستوں پر ارکان کی حلف برداری نہ ہونے پر عدالت عالیہ سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا۔صوبائی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو درخواست دیں گے کہ وہ خود ارکان سے حلف لیں یا کسی کو نامزد کردیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان 6 /5 کا فارمولا برقرار ہے۔ دوسری جانب گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر نامزد ارکان سے حلف نہ لینا افسوس ناک ہے، ہمیں پہلے سے ہی پتہ تھا کہ حلف برداری نہیں ہوگی۔نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تلاوت سے پہلے کورم کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی، پی ٹی آئی آئین کی پاسداری نہیں کر رہی، پھر یہ لوگ شور مچاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حلف ہر صورت ہو گا اور آئینی تقاضا پورا کیا جائے گا تاکہ سینیٹ الیکشنز ہوں۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر ممبران کی بحالی کے بعد اپوزیشن کی تعداد بڑھ گئی، جس سے ایوان میں نمبر گیم بھی تبدیل ہوچکا ہے،2 جولائی کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر 21 خواتین اور 4 اقلیتی امیدواروں کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا۔

صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا اعلامیہ جاری ہونے کے بعد اپوزیشن کی تعداد 52 ہوگئی تھی۔جمعیت علمائے اسلام (ف) 19 نشستوں کے ساتھ خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بن گئی، جے یو آئی (ف) کی 8 خواتین اور 2 اقلیتی نشستیں بحال ہوئیں۔دوسری جانب، مسلم لیگ (ن) کی صوبائی اسمبلی میں 6 خواتین اور ایک اقلیتی نشست بحال ہونے کے بعد ایوان میں تعداد 16 ہوگئی۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی 5 خواتین اور ایک اقلیتی نشست بحال ہونے کے بعد تعداد 11 ہوگئی، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین (پی ٹی آئی پی) کی ایک، ایک خواتین کی مخصوص نشست بحال ہوئی تھی۔ادھر، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی اسمبلی میں کل 94 نشستیں ہیں جن میں سے ایک سنی اتحاد کونسل کی ہے۔

ان 94 میں 35 امیدوار بالکل آزاد ہیں جن میں خود وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی شامل ہے، باقی ارکان نے بیان حلفی جمع کرائے تھی، مگر الیکشن کے بعد پارٹی چننے کے لیے 3 دن کا وقت گزر چکا تھا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 5 کے مقابلے میں 7 کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرلی تھیں، عدالت نے مختصر فیصلے میں 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا اور سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔