یونیورسٹی آف پشاور کے باڑہ گلی سمر کیمپس میں پہلی بین الاقوامی کریمینالوجی کانفرنس اختتام پذیر

ہفتہ 9 اگست 2025 20:10

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 اگست2025ء)وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا ہے کہ‘‘انصاف’’کا تصور ایک پیچیدہ، وسیع اور مسلسل ارتقاء پذیر موضوع ہے، جسے فوری طور پر مکمل یا مثالی شکل میں حاصل کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ قانون کی کامیابی کا انحصار صرف قوانین کی موجودگی پر نہیں بلکہ ان قوانین پر عمل درآمد کرنے والی مشینری کی مضبوطی اور سماجی و ثقافتی عوامل کی پیچیدگی پر بھی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے یونیورسٹی آف پشاور کے باڑہ گلی سمر کیمپس میں پہلی بین الاقوامی کریمینالوجی کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ قانون سازی کے ساتھ ساتھ سماجی، نفسیاتی اور سیاسی محرکات کو سمجھنا اور ان کے مطابق اصلاحات کرنا ناگزیر ہے کیونکہ جرم صرف قانونی مسئلہ نہیں بلکہ معاشرتی رویوں اور نظامی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ ہم قانون کی ظاہری ساخت سے آگے بڑھ کر اس کی بنیاد میں چھپے سماجی مسائل کو سمجھیں۔انہوں نے معاشرتی نظام اور قانون سازی کے تعلق کو براہ راست معاشرتی اقدار سے جوڑا، اور کہا کہ طاقت اور مفادات کی کشمکش جیسے دو بنیادی پیراڈائمز نے انسانی معاشروں اور ان کے قانونی نظام کی تشکیل کی ہے۔ قانونی اصلاحات کے لیے صرف قانون سازی کافی نہیں بلکہ سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی عوامل کو سمجھنا اور ان کا مؤثر علاج کرنا بھی لازم ہے۔

مشیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان میں کرمنل جسٹس کا مسئلہ صرف قوانین کی کمی یا سختی کا نہیں بلکہ ان قوانین پر عمل درآمد کرنے والی مشینری کی کمزوریوں کا بھی ہے۔ وکلاء، ججز اور پولیس افسران کی تربیت اور استعداد میں بہتری لا کر ہی نظام کو فعال بنایا جا سکتا ہے۔ موجودہ نظام میں سسٹمک ڈس آرڈر کی وجہ سے انصاف کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔انہوں نے عدل و انصاف کے ارتقاء کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ انسانی معاشروں نے بنیادی طور پر دو قسم کی اقدار اپنائی ہیں: ایک وہ جو انسان کو معاشرت کا مرکز مانتی ہے، اور دوسری وہ جو اقدار کو فوقیت دیتی ہے۔

مغربی لبرل نظام میں انسان کو معاشرے کا مرکز سمجھا جاتا ہے جبکہ مشرقی معاشروں میں معاشرتی اقدار کو اہمیت دی جاتی ہے۔مشیر اطلاعات نے پولیس میں طاقت کے غلط استعمال اور عوام کی جانب سے عدم حمایت کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی، اور کہا کہ پولیس اہلکار ایک ایسے معاشرتی ماحول میں کام کر رہے ہیں جہاں انہیں سماجی تحفظ حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک معاشرتی رویے اور اقدار میں تبدیلی نہیں آئے گی، تب تک کرمینل جسٹس میں بنیادی اصلاحات ممکن نہیں۔

بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے مزید کہا کہ جرم کے خلاف صرف سخت سزائیں دینا مسئلہ حل نہیں کرتا بلکہ جرم کی جڑوں کو ختم کرنا ضروری ہے، جس کے لیے اپنی ثقافت، سماجی اقدار اور رویوں کو بہتر بنانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی تاریخ اور نو آبادیاتی اثرات سے آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری خود اٹھانی ہوگی تاکہ ایک مضبوط، شفاف اور موثر عدالتی نظام قائم کیا جا سکے جو سماجی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

مشیر اطلاعات نے کہا کہ‘‘عدل’’اسلام کا بنیادی ستون ہے اور اس کے بغیر نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی بھی درست سمت میں نہیں چل سکتی۔ اسی لیے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے کام میں انصاف اور اخلاقیات کو اولین ترجیح دیں۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جرم کی روک تھام کے لیے صرف سزا اور سخت قوانین کافی نہیں، بلکہ جرم کی جڑیں یعنی معاشرتی محرومی، سماجی ناانصافی اور مایوسی کو ختم کرنا ہوگا۔

کرمینالوجی ایک کثیر الجہتی سائنس ہے جو سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی عوامل کے پیچیدہ تعلقات کو سمجھ کر ہی مؤثر حل نکال سکتی ہے۔کانفرنس میں دیگر معزز شرکاء جن میں پروفیسر ڈاکٹر جوہر علی، وائس چانسلر یونیورسٹی آف پشاور، پروفیسر ڈاکٹر ناصر جمال خٹک، وائس چانسلر یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر، مظفرآباد، امین الرحمٰن یوسف زئی، ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اور صدر پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، ڈاکٹر بشارت حسین، چیئرمین شعبہ کریمینالوجی یونیورسٹی آف پشاور، ڈاکٹر وحید احمد عباسی، چیئرمین شعبہ کریمینالوجی یونیورسٹی آف سندھ، عابد حسین، ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر سندھ، محمد وسیم خان، سپرنٹنڈنٹ جیل مردان، اور وجاہت ملک، وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ شامل تھے۔