اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 اگست2025ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ایف آئی اے نے”اے پی پی“ کرپشن کیس میں دو روز قبل ایف آئی آر درج کی، تفصیلی انکوائری کے بعد جرم کی سنگینی اور قانونی حیثیت کی تصدیق کی گئی، بدعنوانی میں ملوث عناصرنے بحالی کے لیے سفارشوں اور سیاسی دبائوالنے کی کوشش کی تاہم دبائو کے باوجود ایم ڈی اے پی پی نے بدعنوانی سے فعال طریقے سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدام اٹھایا، ذاتی طور پر ایف آئی اے سے رابطے میں ہوں، کسی امتیاز کے بغیر سخت کارروائی یقینی بنائی جائے گی، سبسڈی کی واپسی کے بعد پی ٹی وی کو مالی چیلنجز درپیش آئے، وزارت مقامی سطح پر پیداواری صلاحیتوں کو فروغ دینے کے طریقے تلاش کر رہی ہے، پاکستان بڑی کرکٹ سیریز کی تیاری اور نشریات کے لیے غیر ملکی کمپنیوں پر انحصار کرتا ہے، غیر ملکی کیمروں، پروڈیوسروں اور کمنٹیٹرز کی خدمات حاصل کرنے میں کافی اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں، پی ٹی وی سپورٹس کی ریٹنگ نجی سپورٹس چینلز سے دوگنا زیادہ ہے، پی ٹی وی پر اپوزیشن جماعتوں کو مکمل کوریج دی جاتی ہے، سیاسی نمائندوں اور تجزیہ کاروں کو پروگراموں میں مدعو کیا جاتا ہے، ان پروگراموں میں ترمیم یا سنسر نہیں کی جاتی۔
(جاری ہے)
یہ بات انہوں نے پیر کو یہاں پیمرا ہیڈ کوارٹرز میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس کی صدارت رکن قومی اسمبلی پُلین بلوچ نے کی جس میں پی ٹی وی کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا کہ اگر معاملہ فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو یہ مزید بگڑ سکتا ہے۔
اجلاس میں مختلف ایجنڈا آئٹمز پر بھی تبادلہ خیال ہوا جن میں پیمرا کونسل آف کمپلینٹس کی تشکیل پر بریفنگ، ”پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2025ء)، (پرائیویٹ ممبرز بل) پر ذیلی کمیٹی کی سفارشات پر پیمرا کی طرف سے بریفنگ، ویب ٹی وی اور اوور دی ٹاپ (او ٹی ٹی) پلیٹ فارمز کا ضابطہ، پیمرا لائسنس دہندگان کی کارپوریٹ سماجی ذمہ داری اور تجارتی و غیر تجارتی ایف ایم ریڈیو لائسنسوں کی ریگولیشن شامل ہیں۔
رکن قومی اسمبلی سحر کامران نے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) میں کرپشن کے بڑے سکینڈل سے متعلق سوالات اٹھائے جس پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے دو روز قبل اس کیس پر فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی ہے جس میں تفصیلی انکوائری کے بعد جرم کی سنگینی اور قانونی حیثیت کی تصدیق ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ بدعنوانی میں ملوث عناصر نے اپنی بحالی کیلئے سفارشوں اور سیاسی دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کا عمل پولیس کی معمول کی شکایات سے مختلف ہے جس میں قابل شناخت جرائم کے تعین کے لیے مکمل تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر ایف آئی اے سے رابطے میں ہیں تاکہ کسی امتیاز کے بغیر سخت کارروائی کی جا سکے۔
مبینہ طور پر کئی بااثر شخصیات نے سیاسی رابطوں کے ذریعے اس عمل میں جوڑ توڑ کی کوشش کی لیکن ان کوششوں کی ناکام بنا دیا گیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے منیجنگ ڈائریکٹر ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) محمد عاصم کھچی کی دیانتداری اور لگن کی تعریف کی اور کہا کہ دبائو کے باوجود انہوں نے بدعنوانی کے خلاف فعال طور پر فیصلہ کن اقدام اٹھایا۔
احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے وزارت اور ایف آئی اے کے درمیان مسلسل ہم آہنگی کے ساتھ تحقیقات جاری ہیں۔ عطاء اللہ تارڑ نے ٹیلی ویژن چینلز کی ”کارپوریٹ سماجی ذمہ داری“ کی طرف توجہ مبذول کرائی اور کہا کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ زیادہ تر عوامی خدمت کے پیغامات آدھی رات کے بعد ریگولیٹری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نشر کئے جاتے ہیں جبکہ دیکھنے کے اوقات کار ادا شدہ اشتہارات کے لئے مخصوص کئے گئے تھے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زیادہ سے زیادہ عوامی اثر کے لیے اس طرح کے پیغامات دن کے وقت نشر کئے جائیں۔ وفاقی وزیر نے سبسڈیز کی واپسی کے بعد پی ٹی وی کو درپیش مالی چیلنجوں کے بارے میں کہا کہ وزارت مقامی پیداواری صلاحیتوں کو فروغ دینے کے طریقے تلاش کر رہی ہے۔ پاکستان بڑی کرکٹ سیریز کی تیاری اور نشریات کے لیے غیر ملکی کمپنیوں پر انحصار کرتا ہے، غیر ملکی کیمروں، پروڈیوسروں اور کمنٹیٹرز کی خدمات حاصل کرنے میں کافی اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی سپورٹس کی ریٹنگ نجی سپورٹس چینلز سے دوگنا زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی اپوزیشن جماعتوں کو مکمل کوریج دے رہا ہے جس میں تمام سیاسی نمائندوں اور تجزیہ کاروں کو پروگراموں میں مدعو کیا جاتا ہے، ان پروگراموں میں ترمیم یا سنسر نہیں کی جاتی۔ وفاقی وزیر نے صوبائی حکومتوں اور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اشتہارات میں اضافے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے ریونیو جنریشن میں حالیہ پیش رفت کا ذکر کیا۔
ان اداروں کو خطوط بھیجے گئے ہیں جس میں ان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سرکاری ٹیلی ویژن پر مزید اشتہارات مختص کرکے اپنی قومی ذمہ داری پوری کریں تاہم انہوں نے کہا کہ پچھلی دو دہائیوں میں سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک کمزور مارکیٹنگ اور سیلز ہے جس کے باعث براڈکاسٹر، ناظرین اور آمدنی پر منفی اثر پڑا۔ عطاء اللہ تارڑ نے مزید کہا کہ جدت اور افرادی قوت کی معقولیت براڈکاسٹر کے مستقبل کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی وی ہوم کو آئوٹ سورس کرنے پر غور کیا جا رہا ہے جبکہ پی ٹی وی ورلڈ جدید نشریاتی معیارات پر پورا اترنے کے لیے مکمل طور پر نئے سرے سے کام کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر نے کمیٹی سے اپیل کی کہ وہ پی ٹی وی کی تنظیم نو پر غور کرے۔ ملازمین کی فلاح و بہبود کے بارے میں وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی وی میں میرٹ کی بنیاد پر اصلاحات لائی جا رہی ہیں اور تنخواہوں اور پنشن کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کی بحالی ہر کسی کے مفاد میں ہے کیونکہ یہ صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ہماری قومی شناخت کا حصہ ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وزارت اسے ایک منافع بخش اور پائیدار براڈکاسٹر بنانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔ وفاقی وزیر نے ضلع سانگھڑ میں صحافی خاور حسین کی ہلاکت کے حالیہ واقعے کے حوالے سے آئی جی سندھ پولیس کو فون کر کے کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں رپورٹ پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
کمیٹی کی رکن ایم این اے سحر کامران نے بتایا کہ پی ٹی وی ملازمین کو طویل عرصے سے تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا سامنا ہے۔ رکن قومی اسمبلی مہتاب اکبر نے کئی پنشنرز کو ادائیگیوں میں تاخیر کی نشاندہی کی۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پی ٹی وی کی 35 روپے کی لائسنس فیس ختم ہونے سے مالیاتی چیلنج درپیش آیا تاہم وزیر اعظم کی ہدایت پر فنانس ڈویژن نے سالانہ 11 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا ہے جسے سہ ماہی بنیادوں پر جاری کیا جائے گا۔
انہوں نے یقین دلایا کہ پی ٹی وی کے مالیاتی نظام کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ چیئرمین کمیٹی پُلین بلوچ نے ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے جامع بریفنگ دی جائے۔ کمیٹی نے پیمرا ترمیمی بل 2024ء پر ذیلی کمیٹی کی سفارشات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے کہا کہ اتھارٹی نے پروڈیوسرز اور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد تجاویز سے اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حد سے زیادہ سنسر شپ تنوع کو محدود کر دے گی۔ ایم این اے آسیہ ناز تنولی نے کہا کہ اس کا مقصد مکمل پابندیاں عائد کرنا نہیں بلکہ میڈیا میں سماجی حقائق کی عکاسی کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے پیمرا کی کونسل آف کمپلینٹس میں ایڈورٹائزنگ سیکٹر کے نمائندے کو شامل کرنے کی تجویز دی۔ مہتاب اکبر راشدی نے اہم سماجی مسائل کو حل کرنے کے لیے ڈراموں کی ضرورت پر زور دیا۔
کمیٹی نے ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارم کو ریگولیٹ کرنے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ پیمرا حکام نے وضاحت کی کہ رولز کو حتمی شکل دینا باقی ہے اور اس وقت تک ایسے پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ چیئرمین پیمرا نے کہا کہ قوانین کا مسودہ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کیسز (سی سی ایل سی) کے پاس ہے۔ اس موقع پر سیکریٹری اطلاعات نے بتایا کہ قواعد کو سی سی ایل سی نے بہتری کے لیے واپس بھیج دیا تھا اور اس کے بعد دوبارہ جمع کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ چونکہ وزارت اطلاعات اس کی منظوری دینے کی مجاز اتھارٹی نہیں ہے، اس لیے نظرثانی شدہ مسودہ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کرنے سے پہلے کلیئرنس کے لیے سی سی ایل سی کے پاس واپس جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ درست ٹائم فریم اس بات پر منحصر ہے کہ سی سی ایل سی اپنے تحفظات کو دور کرنے میں کتنا وقت لیتی ہے۔ وزارت پیشرفت کو یقینی بنانے کے لیے سرگرمی سے پیروی کر رہی ہے جبکہ حتمی منظوری کا اختیار کابینہ کے پاس ہے۔
پیمرا حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 171 کمرشل اور 68 نان کمرشل ایف ایم ریڈیو لائسنس جاری کیے گئے ہیں، تمام کمرشل سٹیشنز اس وقت کام کر رہے ہیں۔ چیئرمین پُلین بلوچ اور کمیٹی کے دیگر اراکین نے حال ہی میں سول اعزازات سے نوازے جانے پر وفاقی وزیر اطلاعات اور سیکرٹری اطلاعات کو مبارکباد دی۔ کمیٹی نے انفارمیشن اور میڈیا کے شعبے میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔
اجلاس خیبر پختونخوا میں حالیہ سیلاب میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے فاتحہ خوانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اجلاس میں وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ، ایم این ایز ندیم عباس، کرن عمران ڈار، آسیہ ناز تنولی، مہتاب اکبر راشدی، سحر کامران، سید امین الحق، محمد معظم علی خان، سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات، عنبرین جان (ایس آئی)، پارلیمانی سیکریٹری برائے اطلاعات و نشریات بیرسٹر محمد دانیال چوہدری، چیئرمین پیمرا محمد سلیم بیگ اور دیگر محکموں کے افسران نے شرکت کی۔