اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 ستمبر 2025ء) اس جنوبی ایشیائی ملک میں موجودہ سیلاب اب تک سینکڑوں انسانوں کی موت کی وجہ بننے کے علاوہ کئی ملین شہریوں کو متاثر بھی کر چکے ہیں جبکہ ان حالات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کل بدھ کے روز ملک میں ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کا اعلان بھی کر دیا تھا۔
پاکستانی معیشت میں زرعی شعبہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
ملکی کسانوں کی تنظیم کسان بورڈ آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل وقار احمد کے مطابق مون سون کی شدید بارشوں کے بعد آنے والے سیلابوں نے ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں جن فصلوں کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے، ان میں چاول اور گنا سب سے نمایاں ہیں۔کسان گھرانوں اور عام شہریوں کی مشکلات
مختلف متاثرہ علاقوں میں غیر معمولی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کسان گھرانوں کے لیے کتنے وسیع نقصانات کا سبب بنے ہیں، اس کی ایک مثال ہیڈ محمد والا کی رہائشی نورین کمال کے خاندان کی بھی ہے۔
(جاری ہے)
ملتان کی رہائشی سعدیہ بٹ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اپنے حالیہ دورہ ملتان کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ آٹے کی قیمت نہیں بڑھے گی۔ لیکن اگلے ہی روز ملتان میں آٹے کی فی کلوگرام قیمت 80 روپے سے 130 روپے ہو گئی، جو کئی جگہوں پر مزید اضافے کے بعد اب 150 روپے ہے۔ کارگو سروس معطل ہے، اشیائے خوراک کی بین الصوبائی نقل و حمل اس وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس وجہ سے پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ مون سون اور سیلاب سے پہلے کے مقابلے میں ملتان میں ٹماٹر تو اب چار گنا مہنگا ہے۔‘‘جنوبی پنجاب کی صورت حال
جنوبی پنجاب کی موجودہ صورتحال جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی کوآرڈینیٹر اور کئی سالوں سے سیلابی علاقوں میں فیلڈ ورک کرنے والی انیلا اشرف سے، تو انہوں نے تصدیق کی کہ ملتان ریجن میں ہزاروں ہیکٹر زرعی رقبہ سیلاب کی زد میں آ چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''جنوبی پنجاب میں سیلاب سے گنے، کپاس، تل اور چاول کی فصلوں، سبزیوں کے کھیتوں اور کینو اور آم کے باغات کو بری طرح نقصان پہنچا ہے جبکہ ہزاروں مویشی اور دیگر جانور بھی سیلاب میں بہہ گئے۔ سیلابی متاثرین کو بھوک کے مسئلے کا سامنا بھی ہے اور مجموعی زرعی پیداوار میں کمی سے آئندہ جیسے ایک نیا بحران دہلیز پر کھڑا ہو گا۔
‘‘نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ماہر ڈاکٹر طیب شاہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ اتھارٹی کی پوری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریسکیو کیا جائے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ جنوبی اور وسطی پنجاب میں اس وقت سیلابی صورتحال بہت تشویشناک ہے۔ انہوں نے بتایا، ''ملتان کے جنوبی علاقے میں جلالپور پیروالا میں سیلابی صورت حال انتہائی نوعیت کی ہے جبکہ بہاولنگر ریجن میں بھی کئی علاقوں کو شدید سیلاب کا سامنا ہے۔
‘‘ہلاکتیں اور متاثرین
ڈاکٹر طیب شاہ کے مطابق پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور مون سون کی غیر معمولی حد تک شدید بارشوں کے باعث بار بار ایسی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ''2022 میں آنے والے سیلاب سے 1700 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں اور 33 ملین پاکستانی متاثر ہوئے تھے۔ اب اس سال بھی خراب موسمی حالات اور سیلابوں کے سبب تاحال 900 سے زائد افراد ہلاک اور تقریباﹰ 10 ملین متاثر ہو چکے ہیں۔
‘‘نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اس اہلکار کے مطابق، ''اس سال ہم نے ایک مختلف سیلابی صورت حال دیکھی ہے۔ ایسے دریا بھی بہت فعال ہو گئے، جو گزشتہ قریب چالیس سال سے تقریباﹰ خشک تھے۔ دریائے چناب اور دریائے ستلج میں 1955، 1971 اور 1988 کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ تین سال پہلے بلوچستان اور سندھ کے مقابلے میں اس سال پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صوبوں میں سیلاب سے بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔
‘‘غذائی قلت کا خدشہ
این ڈی ایم اے کے ڈاکٹر طیب شاہ کے الفاظ میں، ''ہمیں شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ہماری لاکھوں ایکڑ پر پھیلی کپاس، چاول اور سبزیوں کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ ان حالات میں اشیائے خوراک کی مقامی پیداوار میں آئندہ کمی کا خدشہ ہے، اور یوں زرعی پیداوار کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہو گا۔
‘‘پاکستان کو اپنے ہاں بار بار آنے والے تباہ کن سیلابوں سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ یہ سوال ڈی ڈبلیو نے پوچھا حیاتیاتی تنوع کے ماہر نعیم اشرف راجا سے، جن کا کہنا تھا، ''اچانک آنے والے سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔‘‘
نعیم اشرف راجا نے کہا، ''ان اقدامات میں سب سے پہلے تو پورے پاکستان کے لیے زمین کے استعمال کا مناسب منصوبہ بنایا جانا چاہیے۔
اس منصوبے پر مبنی سیلاب والے میدانی علاقوں کا انتظام سیلاب سے پیدا ہونے والے خطرات کو کم کر سکتا ہے۔ اہم جغرافیائی معلومات پر مبنی ابتدائی وارننگ نظام بھی مددگار ہوتا ہے، جسے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اس سال فعال انداز میں استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ بہتر پلاننگ سے سیلاب کو مٹی کی زرخیزی بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور سیلابی پانی آبی ذخائر کو ری چارج کرنے کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔‘‘