صدر ٹرمپ سے آٹھ اسلامی ممالک کے رہنمائوں کی ملاقات میں مسئلہ فلسطین اور غزہ کی صورتحال پر ایک مثبت پیشرفت سامنے آئی ہے، سردار مسعود خان

جمعرات 25 ستمبر 2025 17:35

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 ستمبر2025ء) آزادکشمیر کے سابق صدر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ سے آٹھ اسلامی ممالک کے رہنمائوں کی ملاقات میں مسئلہ فلسطین اور غزہ کی صورتحال پر ایک مثبت پیشرفت سامنے آئی ہے، اس ملاقات کے بعد جو اطلاعات آرہی ہیں ان کے مطابق صدر ٹرمپ غزہ کے حوالے سے ایک امن منصوبہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی غزہ سے بتدریج واپسی کا عمل شروع کیا جائے، غزہ میں ایک حکومتی ڈھانچہ قائم کیا جائے، غزہ اور مقبوضہ فلسطین کی سکیورٹی کے لئے مسلمان فلسطینیوں اور عرب فوجیوں پر مشتمل ایک فورس تشکیل دی جائے جس کے لئے فنڈنگ عرب ممالک مہیا کریں گے، عرب ممالک کی طرف سے یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ غزہ اور فلسطین کے کسی حصے کو اسرائیل میں مدغم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی الاقصی کا موجودہ سٹیٹس تبدیل کیا جائے گا، یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اسرائیل مذید غیر قانونی بستیاں نہیں تعمیر کرے گا، اگر ان تجاویز پر عملدرآمد ہوتو یہ ایک نہایت اہم پیشرفت ہے۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ اور واشنگٹن میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے جاری بین الاقوامی سرگرمیوں کے بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ اس اعتبار سے بھی اہم بات ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم صدر ٹرمپ سے ملاقات میں جب غزہ کی صورتحال کو زیر بحث لائیں گے تو اس مسئلے کے ممکنہ حل کی جانب مزید پیشرفت کی راہ ہموار ہوگئی ہے کیونکہ یہ وہ نقاط ہیں جو وزیراعظم پاکستان بھی ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ کے سامنے اٹھائیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ ایران نے پاک سعودیہ سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ کی حمایت کردی ہے اور کہا ہے کہ اس دفاعی اتحاد کو دیگر مسلمان ممالک تک توسیع دی جاسکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سردار مسعود خان نے کہا کہ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کے عشروں سے اتحادی چین کے ساتھ جا ملیں، اس لئے وہ عربوں کے دل جیتنے کی کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے ممکنہ طور پر مئلہ فلسطین پر ایک بار پھر ویٹو کے امکان پر گفتگو کرتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ آٹھ مسلمان ممالک کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں جو امن منصوبہ ڈسکس ہوا ہے، جس میں غزہ میں جنگ بندی بھی شامل ہے، اگر اس منصوبے پر اتفاق ہو جاتا ہے تو امریکہ ویٹو کا اختیار نہیں استعمال کرے گا لیکن اس کی کوئی ٹائم لائن نہیں طے کی گئی ہے۔

ابھی یہ بھی سوچ و بچار ہورہی ہے کہ جنگ بندی کے بعد 2026ء میں وہاں انتخابات کرائے جائیں اور اس بات پر بھی گفتگو ہورہی ہے کہ سکیورٹی کے اعتبا ر سے غزہ کو تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ادھر سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں نے یہ بھی طے کرلیا ہے کہ غزہ میں مستقبل میں حماس کا گورننس میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔سردار مسعود خان نے مزید کہا کہ یہ تو فلسطین کی صورتحال کا سیاسی پہلو ہے لیکن سب سے بڑا اور گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ غزہ کے مسلمانوں کو گھیر کر اور انہیں گھروں سے بے دخل کرکے مارا جا رہا ہے، ان تک کوئی امداد نہیں پہنچنے دی جا رہی ہے اور بھوک و پیاس کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس جارحیت اور بربریت کو روکنا بہت ضروری ہے اور اس کو صرف امریکا روک سکتا ہے۔