ٹرمپ غزہ کیلئے نیا امن منصوبہ پیش کریں گے، سردارمسعود خان

جمعرات 25 ستمبر 2025 22:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 ستمبر2025ء) آزادکشمیر کے سابق صدر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ سے آٹھ اسلامی ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات میں مسلہ فلسطین اور غزہ کی صورتحال پر ایک مثبت پیشرفت سامنے آئی ہے۔ اس ملاقات کے بعد جو اطلاعات آرہی ہیں ان کے مطابق صدر ٹرمپ غزہ کے حوالے سے ایک امن منصوبہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ حماس کی تحویل میں اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے، اسرائیلی فوج کی غزہ سے بتدریج واپسی کا عمل شروع کیا جائے، غزہ میں ایک حکومتی ڈھانچہ قائم کیا جائے، غزہ اور مقبوضہ فلسطین کی سیکورٹی کے لئے مسلمان فلسطینیوں اور عرب فوجیوں پر مشتمل ایک فورس تشکیل دی جس کے لئے فنڈنگ عرب ممالک مہیا کریں گے، عرب ممالک کی طرف سے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ غزہ اور فلسطین کے کسی حصے کو اسرائیل میں مدغم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی الاقصی کا موجودہ اسٹیٹس تبدیل کیا جائے گا، یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اسرائیل مذید غیر قانونی بستیاں نہیں تعمیر کرے گا۔

(جاری ہے)

اگر ان تجاویز پر عملدرآمد ہوتو یہ ایک نہایت اہم پیشرفت ہے۔ اقوام متحدہ اور واشنگٹن میں مسلہ فلسطین کے حوالے سے جاری بین الاقوامی سرگرمیوں کے بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ اس اعتبار سے بھی اہم بات ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم صدر ٹرمپ سے ملاقات میں جب غزہ کی صورتحال کو زیر بحث لائیں گے تو اس مسلے کے ممکنہ حل کی جانب مذید پیشرفت کی راہ ہموار ہوگئی ہے کیونکہ یہ وہ نقاط ہیں جو وزیراعظم پاکستان بھی ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ کے سامنے اُٹھائیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ ایران نے پاک سعودیہ اسٹرٹیجیک باہمی دفاعی معاہدہ کی حمایت کردی ہے اور کہا ہیکہ اس دفاعی اتحاد کو دیگر مسلمان ممالک تک توسیع دی جاسکتی ہے۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا امریکہ سے بداعتمادی کا شکار عرب ممالک اب چین کی طرف رخ کریں گے تو سردار مسعود خان نے کہا کہ امریکہ کبھی نہیں چاہے کہ اس کے عشروں سے اتحادی چین کے ساتھ جا ملیں، اسلئے وہ عربوں کے دل جیتنے کی کوشش کریں گے، امریکہ چین کو اپنا مدمقابل اور اہم حریف تو سمجھتا ہے لیکن امریکہ عربوں کو مکمل طور چین سے زیادہ دور بھی نہیں رکھ سکتا کیونکہ ان ممالک سے چین کے سرمایہ کاری اور تجارت کی بنیاد پر تعلقات قائم ہیں اور چین کا وہاں اثر و رسوخ ہے۔

اسلئے امریکہ کی کوشش ہوگی کہ وہ اگر وہ خلیجی ممالک کا مکمل اعتماد نہ بھی حاصل کرسکے تو کم ازکم یہ ضرور کرے گا کہ ان ممالک کو چین کے کیمپ میں جاکر بیٹھنے سے روک دے۔ خود عرب ممالک بھی آسانی سے امریکہ کو خدا حافظ نہیں کہیں گے کیونکہ ان کی ڈوریاں بڑی مضبوطی کے ساتھ امریکہ کے ساتھ بندھی ہوئیں ہیں، اس لئے امریکہ بھر پور کوشش کرے گا اپنے پرانے اتحادیوں کو چین کے ساتھ کے ساتھ جا ملنے سے روک سکے۔

امریکہ کی طرف سے ممکنہ طور پر مسلہ فلسطین پر ایک پھر ویٹو کے امکان پر گفتگو کرتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ آٹھ مسلمان ممالک کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں جو امن منصوبہ ڈسکس ہوا ہے، جس میں غزہ میں جنگ بندی بھی شامل ہے، اگر اس منصوبے پر اتفاق ہو جاتا ہے تو امریکہ ویٹو کا اختیار نہیں استعمال کرے گا لیکن اس کی کوئی ٹائم لائن نہیں طے کی گئی ہے۔

ابھی یہ بھی سوچ و بچار ہورہی ہے کہ جنگ بندی کے بعد 2026 میں وہاں انتخابات کرائے جائیں اور اس بات پر بھی گفتگو ہورہی ہے کہ سیکورٹی کے اعتبار غزہ کو تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ادہر سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں نے یہ بھی طے کرلیا ہے کہ غزہ میں مستقبل میں حماس کا گورننس میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔سردار مسعود خان نے مذید کہا کہ یہ تو فلسطین کی صورتحال کا سیاسی پہلو ہے لیکن سب سے بڑا اور گھمبیر مسلہ یہ ہے کہ غزہ کے مسلمانوں کو گھیر کر اور انہیں گھروں سے بے دخل کرکے مارا جا رہا ہے، ان تک کوئی امداد نہیں پہنچنے دی جا رہی ہے اور بھوک و پیاس کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس جارحیت اور بربریت کو روکنا بہت ضروری ہے اور اس کو صرف امریک روک سکتا ہے۔