اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 ستمبر 2025ء) پاکستان میں مذہبی طبقہ، عدالتیں اور قانون ساز لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر پر ابھی تک متفق نہیں ہو سکے۔ پارلیمنٹ کچھ قانون بناتی ہے، عدالتیں کچھ فیصلے دیتی ہیں اور مذیبی طبقہ دونوں ہی کو ماننے کو تیار نہیں۔
پاکستان میں شادی کی عمر کے قوانین اب بھی متضاد ہیں۔ سندھ میں دونوں جنسوں کے لیے کم از کم عمر 18 سال مقرر ہے، خلاف ورزی پر تین سال تک قید اور جرمانہ ہوسکتا ہے جبکہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان اب بھی پرانے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ پر عمل کرتے ہیں، جس میں لڑکوں کے لیے عمر 18 اور لڑکیوں کے لیے 16 سال ہے۔
پنجاب کے 2015 کے قانون کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں کو چھ ماہ تک قید اور پچاس ہزار روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔
(جاری ہے)
وفاقی دارالحکومت کے 2025 کے قانون میں دونوں جنسوں کے لیے عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے، سزا تین سال تک قید اور کم از کم ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے، جبکہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر اب بھی پرانے 1929 کے قانون کے تحت چل رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے حلقے سمجھتے ہیں کہ قوانین میں یہ تضاد نفاذ کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور اس پر ستم یہ کہ ان قوانین پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔
حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے ایک کم عمری کی شادی کے مقدمے میں فیصلہ دیتے ہوئے نکاح کو جائز قرار دیا، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ شریعت کے مطابق لڑکی کا بلوغت کو پہنچنا شادی کے لیے کافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں ریاستی قانون کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ کیا عدالت کا فیصلہ اس قانون کو غیر مؤثر نہیں بنا دیتا؟
معروف وکیل اور حقوقِ نسواں کی کارکن رابعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف صوبائی قانون کے خلاف ہے جو کم از کم شادی کی عمر لڑکیوں کے لیے 16 سال مقرر کرتا ہے، بلکہ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے بھی برعکس ہے جس میں واضح کیا گیا تھا کہ ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ معاشرے یا اس کے کسی طبقے کی بہتری کے لیے قانون سازی کرے۔
رابعہ باجوہ کہتی ہیں کہ کم از کم شادی کی عمر کے قانون کے پیچھے نظریہ یہ ہے کہ انسان اس عمر تک پہنچے جب وہ اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے اور کسی معاہدے میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں 18 سال سے کم عمر ہر شخص ''نابالغ‘‘ کہلاتا ہے اور وہ کسی معاہدے پر دستخط نہیں کرسکتا۔ ربیعہ باجوہ کہتی ہیں، ''شادی بھی ایک معاہدہ ہے تو پھر قانون کس طرح 18 سال سے کم عمر کو اس میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے اور لاہور ہائی کورٹ کس طرح ایک ایسی شادی کو جائز قرار دیتی ہے جس میں لڑکی صرف 15 سال کی تھی؟‘‘
مذہبی حلقے کیا سوچ رکھتے ہیں؟
یہ تضاد یہیں ختم نہیں ہوتا۔
پنجاب کا صوبائی قانون اگرچہ 16 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کو روکتا ہے، لیکن عدالت نے بلوغت اور لڑکی کی رضامندی کی بنیاد پر اس کے برعکس فیصلہ دیا۔ تاہم، کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جو کم عمری کی شادیوں کو تو جائز قرار دیتے ہی ہیں لڑکی کی مرضی تک جاننا بھی ضروری نہیں گردانتے۔پاکستان میں ایسے مذہبی حلقے بھی موجود ہیں جو لڑکی کی رضامندی کو ضروری نہیں سمجھتے، خاص طور پر جب وہ نابالغ ہو۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا، ’’ریاستی قوانین مغرب کے اثر و رسوخ میں بنائے جاتے ہیں۔ شریعت کے مطابق، والد اپنی بیٹی کا نکاح بلوغت کے بعد کسی بھی مناسب آدمی سے کر سکتا ہے۔ اس میں لڑکی کی رضامندی ضروری نہیں، والد اس کی جانب سے رضامندی دے سکتا ہے۔‘‘جب ان سے لڑکی کی مرضی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد اگر وہ اپنی شادی سے خوش نہ ہو تو وہ خلع لے سکتی ہے، اور یہ شریعت میں جائز ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ شق ''محمدن لا‘‘ میں درج ہے جو نوآبادیاتی دور میں ایک ہندو ماہر قانون نے مرتب کیا تھا اور یہ آج بھی اسلام کی روح کے مطابق نافذ ہے۔سینیٹر کامران مرتضیٰ کے ان بیانات کے برعکس، انسانی احقوق کے کارکن، جو طویل عرصے سے پاکستان میں بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، مؤقف رکھتے ہیں کہ شادی کی کم از کم عمر کے قوانین اس لیے بنائے گئے ہیں تاکہ ہر فرد اپنی مرضی اور پختگی کے ساتھ شادی کے معاہدے میں داخل ہو سکے، نہ کہ کوئی دوسرا ان کی زندگی کے اتنے اہم فیصلے پر ان کی جانب سے رضامندی دے۔
پاکستان میں اگرچہ قوانین کو کمزور سمجھا جاتا ہے، لیکن ان میں کم عمری کی شادی کرانے والوں کے لیے قید اور جرمانے کی سزا موجود ہے۔ سندھ میں والدین اور دیگر افراد، بشمول نکاح پڑھانے والے مولوی کو تین سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
حالیہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل اور حقوق کی کارکن رابعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ عدالتوں کی جانب سے شریعت کی بنیاد پر ایسے فیصلے دینا کوئی نئی بات نہیں، ''لیکن کم از کم عدالت کو ان لوگوں کو ضرور سزا دینا چاہیے تھی جنہوں نے نابالغ لڑکی کی شادی کرائی۔
یہ عمل رکنا چاہیے۔ ہر لڑکی کو اپنا بچپن گزارنے اور قانونی عمر کو پہنچنے کے بعد شریکِ حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہونا چاہیے، اور یہ عمر تمام صوبوں میں 18 سال مقرر ہونی چاہیے۔‘‘