حماس کا ردعمل جنگ بندی کا موقع ہے، اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے، پاکستان

ہفتہ 4 اکتوبر 2025 20:26

حماس کا ردعمل جنگ بندی کا موقع ہے، اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے، پاکستان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 اکتوبر2025ء)وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ میں امن کے لیے حماس کے ردعمل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاہے کہ حماس کا ردعمل جنگ بندی کا موقع ہے، اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔وزیراعظم نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ الحمدللہ، ہم جنگ بندی کے اٴْس مقام کے قریب ہیں جہاں ہم اس نسل کٴْشی کے آغاز کے بعد سے کبھی نہیں پہنچے تھے، پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہنے کا عزم رکھا ہے اور ہمیشہ اٴْن کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

انہوں نے لکھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، تٴْرکیہ، اردن، مصر اور انڈونیشیا کی قیادتوں کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے جنہوں نے فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 سالہ اجلاس کے موقع پر صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔

(جاری ہے)

شہباز شریف نے پیغام میں لکھا کہ حماس کے جاری کردہ بیان نے جنگ بندی اور امن کے قیام کیلئے ایک موقع فراہم کیا ہے، جسے ہمیں کسی صورت ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ان شا اللہ، پاکستان اپنے تمام شراکت داروں اور برادر ممالک کے ساتھ مل کر فلسطین میں دائمی امن کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔ دریں اثناء پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے پر حماس کے ردعمل کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے کہ فوری جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے، غزہ میں معصوم فلسطینیوں کے خونریزی کو روکا جائے، یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اور دیرپا امن کے لیے ایک قابلِ اعتماد سیاسی عمل کی راہ ہموار کی جائے، اسرائیل کو فوری طور پر حملے بند کرنے چاہئیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان غزہ میں امن کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں کی تعریف کرتا ہے اور پرخلوص امید رکھتا ہے کہ یہ ایک پائیدار جنگ بندی اور منصفانہ، جامع اور دیرپا امن کا باعث بنے گا، پاکستان اس عمل میں تعمیری اور بامعنی کردار ادا کرتا رہے گا۔بیان میں کہا گیا کہ پاکستان فلسطینی مقصد کی اپنی اصولی حمایت کی تجدید کرتا ہے، اور فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے جو اپنے ناقابلِ تنسیخ حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، تاکہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق ایک خودمختار، قابلِ عمل اور مسلسل ریاستِ فلسطین قائم ہو، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، جیسا کہ بین الاقوامی قوانین اور متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کہا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ شب حماس کی جانب سے غزہ میں امن کے لیے عالمی سطح کے منصوبے پر زیادہ تر مثبت ردعمل کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ حماس امن کیلئے تیار ہے، تل ابیب غزہ پر فوری بمباری روک دے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کی شب تیز رفتار واقعات کے سلسلے کے بعد اعلان کیا تھا کہ فلسطینی گروپ حماس نے ان کے 20 نکاتی امن منصوبے پر زیادہ تر مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے اور یہ کہ گروپ امن کے لیے تیار ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے تل ابیب سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کرے۔

پاکستان گزشتہ ہفتے غزہ میں جنگ بندی اور امن کی کوششوں میں فعال انداز میں شریک ہوا تھا، اس دوران وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے بھی ملاقات کی تھی۔بعد ازاں وائٹ ہاؤس نے غزہ امن منصوبے کے نکات جاری کیے، جس پر پاکستان نے پہلے اس کا خیر مقدم کیا، تاہم بعض نکات میں ترامیم کا علم ہونے پر اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ جب تک مسلم ممالک کی 8 ترامیم شامل نہیں کی جائیں گی، پاکستان اس منصوبے کو قبول نہیں کرے گا۔

7 اکتوبر 2023 کے بعد دو سال مکمل ہونے کو ہیں، جب اسرائیل نے حماس کی جانب سے اپنے شہریوں پر خطرناک حملے کی ایک کارروائی کے بعد غزہ پر جنگ مسلط کر دی تھی، جس میں اب تک 66 ہزار سے زائد فلسطینی شہید، 2 لاکھ کے قریب زخمی ہوچکے ہیں، جب کہ غزہ شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے، اقوام متحدہ اور عالمی ادارے فلسطینیوں کے قتل عام کو اسرائیل کی جانب سے نسل کٴْشی قرار دے چکے ہیں۔