فلسطینیوں کے مقبول ترین رہنما مروان برغوثی، کو رہا کرنے سے اسرائیل کا انکار

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 11 اکتوبر 2025 17:40

فلسطینیوں کے مقبول ترین رہنما مروان برغوثی، کو  رہا کرنے  سے اسرائیل ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اکتوبر 2025ء) اسرائیل نے دیگر ایسے کئی اہم قیدیوں کو بھی رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے، جن کی رہائی کے لیے حماس طویل عرصے سے کوشش کر رہی تھی، اگرچہ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوا کہ آیا اسرائیلی حکومت کی سرکاری ویب سائٹ پر جمعہ کو جاری کی گئی تقریباً 250 قیدیوں کی فہرست حتمی تھی یا اس میں کوئی رد و بدل ہو سکتا ہے۔

حماس کے ایک سینئر عہدیدار موسیٰ ابو مرزوق نے الجزیرہ ٹی وی نیٹ ورک کو بتایا کہ یہ فلسطینی گروپ برغوثی اور دیگر اعلیٰ شخصیات کی رہائی چاہتا ہے اور اس سلسلے میں ثالثوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

مروان برغوثی کو کچھ فلسطینی اپنا نیلسن منڈیلا بھی قرار دیتے ہیں، جو جنوبی افریقہ کے نسل پرستی کے مخالف کارکن تھے۔

(جاری ہے)

طویل عرصے تک جیل کاٹنے والے منڈیلا نسلی عصبیت کے خاتمے کے بعد اپنے ملک کے پہلے سیاہ فام صدر بنے۔

اسرائیل برغوثی کو رہا کرنے سے کیوں گریزاں؟

اسرائیل برغوثی کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ انہیں سن 2004 میں اسرائیل میں ہونے والے حملوں کے سلسلے میں سزا سنائی گئی تھی، جن میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ برغوثی اس وقت عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو برغوثی سے ایک اور وجہ سے خوف ہے۔ قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کی حمایت کرنے کے باوجود وہ دو ریاستی حل کے حامی ہیں، اس لیے برغوثی فلسطینیوں کے لیے ایک ایک مؤثر اور متحد کرنے والی شخصیت ثابت ہو سکتے ہیں۔

جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ

جمعہ 10 اکتوبر کو نافذ ہونے والی جنگ بندی اور غزہکے بعض حصوں سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ، حماس کو پیر تک تقریباً 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کرنا ہے۔ اس کے بدلے اسرائیل کو قید کی سزائیں کاٹ رہے تقریباً 250 فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ غزہ سے گزشتہ دو برسوں کے دوران بغیر کسی الزام کے حراست میں لیے گئے تقریباً 1,700 افراد کو رہا کرنا ہے۔

اسرائیل ان فلسطینی قیدیوں میں سے زیادہ تر کو دہشت گرد سمجھتا ہے، جن میں سے کچھ مبینہ طور پر خودکش بم دھماکوں کی سازشوں میں بھی ملوث تھے۔ بہت سے فلسطینی اسرائیل کی قید میں موجود ہزاروں افراد کو کئی دہائیوں کے فوجی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والے سیاسی قیدی یا مجاہد آزادی سمجھتے ہیں۔

رہا ہونے والوں میں سے بہت سے قیدی بیس بیس سال کی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔

اسرائیلی قیدیوں کی فہرست میں شامل زیادہ تر افراد سن 2000 کی دہائی میں گرفتار ہونے والے حماس اور الفتح دھڑے کے ارکان ہیں۔ ان میں سے کئی کو فائرنگ، بم دھماکوں یا دیگر حملوں میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ فہرست کے مطابق، رہائی کے بعد، ان میں سے نصف سے زیادہ کو غزہ بھیج دیا جائے گا یا فلسطینی علاقوں سے باہر جلاوطن کر دیا جائے گا۔

برغوثی کی رہائی کا مطالبہ اور اسرائیل کا خوف

حماس طویل عرصے سے برغوثی کی آزادی کی خواہاں رہی ہے۔ حماس کے رہنما ماضی میں بھی غزہ میں لڑائی ختم کرنے کے کسی بھی معاہدے کے حصے کے طور پر اسرائیل سے برغوثی کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، جو ان کے اہم سیاسی حریف فتح کے ایک رہنما ہیں۔ لیکن اسرائیل نے گزشتہ تبادلوں میں بھی اس سے انکار کیا ہے۔

اسرائیل کو خوف ہے کہ کہیں تاریخ خود کو نہ دہرائے، جب اس نے سن 2011 کے تبادلے میں حماس کے سینئر رہنما یحییٰ سنوار کو رہا کیا تھا۔ طویل عرصے تک قید کاٹنے والے اس فلسطینی رہنما کو سات اکتوبر 2023 کے حملے کے اہم منصوبہ سازوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے، جس کے بعد غزہ جنگ کا آغاز ہوا۔ وہ گزشتہ سال اسرائیلی افواج کے ایک حملے میں مارے جانے سے قبل اس عسکریت پسند گروپ کی قیادت سنبھال چکے تھے۔

66 سالہ برغوثی فلسطینی سیاست میں چند ایسی شخصیات میں سے ایک ہیں، جنہیں فلسطینیوں کو متحد کرنے کی صلاحیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ انہیں صدر محمود عباس کے ممکنہ جانشین کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے، جو مغربی کنارے کے بعض حصوں کا انتظام سنبھالنے والی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کے عمر رسیدہ اور غیر مقبول رہنما ہیں۔

رائے شماری مسلسل یہ ظاہر کرتی ہے کہ برغوثی فلسطینیوں کے سب سے زیادہ مقبول رہنما ہیں۔

مروان برغوثی ہیں کون؟

برغوثی سن 1959 میں مغربی کنارے کے گاؤں کوبار میں پیدا ہوئے۔ بیر زیٹ یونیورسٹی میں تاریخ اور سیاست کی تعلیم کے دوران، انہوں نے اسرائیلی قبضے کے خلاف طلباء کے احتجاج کی قیادت میں مدد کی۔ وہ پہلی فلسطینی بغاوت میں ایک منتظم کے طور پر ابھرے، جو دسمبر سن 1987 میں شروع ہوئی تھی۔

اسرائیل نے انہیں اردن جلاوطن کر دیا۔ وہ سن 1990 کی دہائی میں عبوری امن معاہدوں کے تحت مغربی کنارے واپس آئے، جس کے تحت فلسطینی اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں آیا، اس کا مقصد ایک ریاست کی راہ ہموار کرنا تھا۔

دوسرا انتفادہ شروع ہونے کے بعد، اسرائیل نے برغوثی، جو اس وقت مغربی کنارے میں فتح کے سربراہ تھے، پر الاقصیٰ شہداء بریگیڈز کی قیادت کا الزام لگایا، جو فتح سے منسلک مسلح گروپوں کا ایک غیر منظم مجموعہ تھا اور جس نے اسرائیلیوں پر حملے کیے تھے۔

برغوثی نے سن 2002 میں دی واشنگٹن پوسٹ میں ایک اداریے میں لکھا: ''میں دہشت گرد نہیں ہوں لیکن میں امن پسند بھی نہیں ہوں۔‘‘

اس کے فوراً بعد، انہیں اسرائیل نے گرفتار کر لیا۔ مقدمے کی سماعت میں انہوں نے اپنا دفاع کرنے سے گریز کیا کیونکہ انہوں نے عدالت کے اختیار کو تسلیم نہیں کیا۔ انہیں بریگیڈز کے کئی حملوں میں ملوث ہونے پر قتل کا مجرم قرار دیا گیا اور پانچ بار عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ دیگر حملوں سے بری کر دیا گیا۔

برغوثی کا اثر و رسوخ اور ماہرین کی رائے

اپنی قید کے دوران بھی برغوثی فلسطینیوں میں ایک مقبول شخصیت رہے۔ سن 2021 میں، برغوثی نے پارلیمانی انتخابات کے لیے اپنی ایک فہرست رجسٹر کروائی، جو بعد میں منسوخ کر دی گئی۔ چند سال قبل انہوں نے اسرائیلی جیل کے نظام میں بہتر سلوک کا مطالبہ کرنے کے لیے 1,500 سے زائد قیدیوں کی 40 روزہ بھوک ہڑتال کی قیادت کی تھی۔

ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ (DAWN) میں نان ریزیڈنٹ فیلو اور جدلیہ (مشرق وسطیٰ کے معاملات سے متعلق ایک آن لائن میگزین) کے شریک مدیر معین ربانی کے بقول برغوثی کو ''ایک قابل اعتبار قومی رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ایک ایسا شخص جو فلسطینیوں کی اس طرح قیادت کر سکتے ہیں، جس میں عباس مسلسل ناکام رہے ہیں۔‘‘

ربانی نے مزید کہا کہ اسرائیل اس سے ''بچنے کا خواہاں ہے‘‘ کیونکہ اس کی برسوں سے پالیسی، فلسطینیوں کو تقسیم رکھنا اور عباس کی انتظامیہ کو کمزور کرنا رہی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عباس بھی برغوثی کی رہائی سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔

تل ابیب یونیورسٹی کے وائس ریکٹر اور عرب - اسرائیلی تعلقات کے ماہر ایال زیسر کا کہنا ہے کہ برغوثی بدعنوان نہیں ہیں جبکہ بدعنوانی نے عباس کی فلسطینی اتھارٹی کو داغدار کیا ہے اور بہت سے لوگوں کو ان کے خلاف کر دیا ہے۔

زیسر نے کہا کہ برغوثی کی مقبولیت فلسطینی اداروں کو مضبوط کر سکتی ہے، جو اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت کے لیے ایک خوفناک خیال ہے۔

برغوثی کو آخری بار اگست میں دیکھا گیا تھا، جب اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر، اِتمار بِن گویر نے ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی، جس میں وہ جیل کے اندر برغوثی کی سرزنش کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اسرائیل ملک کے خلاف کام کرنے والے کسی بھی شخص کا مقابلہ کرے گا اور ''انہیں مٹا دے گا‘‘۔

ادارت: کشور مصطفیٰ، عاطف بلوچ