اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اکتوبر 2025ء) پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے سرکاری ہسپتالوں میں روزانہ سینکڑوں مریض علاج کے لیے قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ پمز ہسپتال میں صورتحال اس حد تک سنگین ہوتی ہے کہ ٹوکن حاصل کرنے کے لیے بھی مریضوں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مریضوں اور ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں میں سہولیات اور عملے کی کمی نے علاج کرانے کو ایک اذیت ناک تجربہ بنا دیا ہے۔
پاکستان: ایچ پی وی ویکسین اور بانجھ پن کے غلط خدشات
ادھر نجی ہسپتالوں کی صورتحال اس کے برعکس ہے، جہاں علاج تو بہتر ہوتا ہے مگر اخراجات عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے نجی پسپتالوں میں معمولی علاج کے لیے بھی ہزاروں روپے وصول کیے جاتے ہیں اور اگر کسی مریض کو کچھ دن کے لیے ہسپتال میں داخل ہونا پڑے، تو بل لاکھوں روپے بنتا ہے۔
(جاری ہے)
سابق مشیر صحت کا موقف
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحت کے شعبے کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ حکومت کی برف سے کم تر ترجیح اور ناکافی بجٹ ہیں۔ سابق مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق ملک میں صحت پر مجموعی قومی پیداوار کا صرف ایک فیصد خرچ کیا جاتا ہے، جو کہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ ان کے بقول جب تک صحت کو بنیادی آئینی حق تسلیم نہیں کیا جاتا اور پالیسی کی سطح پر بنیادی اصلاحات نہیں لائی جاتیں، سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا، ''کوئی حق تب ہی قابل عمل ہوتا ہے، جب اسے آئین میں بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا جائے۔‘‘پاکستان
میں ’باون فیصد‘ خواتین پی سی او ایس کا شکار، بانجھ پن میں اضافہملک کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی لمبی قطاریں ایک عام منظر ہوتی ہیں، جہاں ایک ہی کاؤنٹر پر سینکڑوں لوگ ٹوکن کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔
پمز ہسپتال میں یہی صورتحال دیکھی گئی، جہاں صرف ایک اہلکار سینکڑوں مریضوں کو نمٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ علاج کے لیے آئے لوگوں کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج مفت ضرور ہے، مگر سہولیات اور عملے کی کمی کے باعث زیادہ تر لوگ مجبوراﹰ نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں علاج کے اخراجات عام آدمی کی پہنچ سے بالکل باہر ہوتے ہیں۔زمینی حقائق
عوامی تاثر یہ ہے کہ صحت کی سہولیات کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
پمز ہسپتال میں مریضوں کی قطار میں کھڑے محمد صفی اللہ، جو سوہاوہ سے اپنی اہلیہ کے علاج کے لیے آئے تھے، نے بتایا کہ تب وہ گھنٹوں سے ٹوکن کے انتظار میں تھے۔ان کا کہنا تھا، ''ریاست نہ تو ہمارے شہروں میں علاج کی سہولت دیتی ہے اور نہ ہی بڑے ہسپتالوں میں کوئی آسانی فراہم کرتی ہے، جہاں ہم دور دراز سے اپنے ساتھ امید راحت لیے آتے ہیں۔
یہاں علاج تو دور کی بات ہے، ہم تو ٹوکن حاصل کرنے کے لیے بھی دربدر ہیں۔‘‘نظام کی خرابی کی بڑی وجوہات کیا؟
ڈاکٹر
ظفر مرزا کے مطابق پاکستان کا صحت کا نظام تین بنیادی وجوہات کے باعث بحران کا شکار ہے، جن میں صحت پر ناکافی اخراجات، دیہی اور تحصیل کی سطح پر بنیادی مراکز صحت کا غیر فعال ہونا جس کے باعث لوگ معمولی بیماریوں کے لیے بھی پمز جیسے بڑے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، اور تیسری وجہ بیماریوں کی پیشگی روک تھام کے نظام کی عدم موجودگی ہے۔پولیو
کے مکمل خاتمے کی راہ میں کیا چیز رکاوٹ؟ڈاکٹر
مرزا کا کہنا تھا، ''زیادہ تر بیماریاں وہ ہیں، جن سے بچاؤ ممکن تھا۔ مگر کمزور پرائمری ہیلتھ سسٹم کے باعث بڑے ہسپتال مریضوں سے بھر جاتے ہیں۔ اگر تحصیل کی سطح پر بہتر نظام ہو اور مریض کو ابتدائی مرحلے پر ہی بروقت دوائی مل جائے، تو وہ مرض بڑھنے سے رک جاتا ہے، جس کے باعث لوگ بعد ازاں بڑے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور وہ بھی انہیں علاج فراہم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔‘‘اسلام آباد
کے علاقائی بلڈ سینٹر کی ’پراسرار بندش‘ اور اس کے پیچھے چھپی کہانی!طبی ماہرین کے مطابق حکومت کی کچھ اور ذمہ داریاں بھی ہیں، جنہیں پورا نہ کرنے کی وجہ سے عوام مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان میں ڈینگی بخار اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریاں شامل ہیں، جن سے بروقت مچھر مار اسپرے کے ذریعے بچاؤ ممکن ہے، جبکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کو روک سکتی ہے۔
ایک مقامی معالج ڈاکٹر فرقان نے بتایا کہ ان دنوں کلینکس میں ڈینگی کے بہت زیادہ مریض آ رہے ہیں اور حکومت کو شہروں میں مچھر مار اسپرے کروانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پینے کا صاف پانی نہ یا کم ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ہیپاٹائٹس اور جگر کی بیماریوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے، کیونکہ غریب لوگ پینے کے لیے پانی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے جو بہت مہنگا ہے۔
مریضوں کی بڑی تعداد کا رخ نجی ہسپتالوں کی طرف
پاکستان
میں صحت کو آج تک آئینی یا ایک بنیادی انسانی حق تسلیم نہیں کیا گیا، جب کہ تعلیم کو بھی اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہی یہ حیثیت حاصل ہوئی۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف پر دستخط کر رکھے ہیں، جن کے تحت صحت کی سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر اس سمت میں واضح پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ڈاکٹر
ظفر مرزا کہتے ہیں کہ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 70 فیصد مریض نجی ہسپتالوں سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ سرکاری ہسپتالوں سے انہیں خاطر خواہ سہولیات نہیں ملتیں۔ صحت پر خرچ ہونے والی کل رقم کا تقریباً 55 فیصد عوام اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، جس سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہیلتھ کارڈ اسکیم نے جزوی طور پر سہولت فراہم کی ہے، تاہم پائیدار نظام کے لیے نجی شعبے کو مؤثر طریقے سے صحت کے شعبے کے قومی ڈھانچے میں شامل کرنا ضروری ہے۔پاکستان
میں زچگی کے دوران اموات ایک سنگین مسئلہڈاکٹر
ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ غیر سرکاری ادارے اس خلا کو کسی حد تک پر کر رہے ہیں۔ انڈس ہسپتال، الخدمت اور شوکت خانم جیسے ادارے مفت یا کم لاگت علاج فراہم کر رہے ہیں، جو ریاستی نظام کی کمزوری کے مقابلے میں امید کی ایک کرن ہے۔ تاہم ان کے نزدیک جب تک پاکستانی حکومت صحت کو آئینی طور پر بنیادی انسانی حق تسلیم نہیں کرے گی اور اپنی مالی اخراجات کی ترجیحات میں شامل نہیں کرے گی، ملک میں مساوات پر مبنی مؤثر نظام صحت قائم نہیں ہو سکے گا۔ادارت: مقبول ملک