شام میں بغاوت کے آغاز سے جنگی قیدیوں پر منظم طریقے سے تشدد اور 11 ہزار افراد کوپھانسی دی گئی ،رپورٹ

بدھ 22 جنوری 2014 06:23

دمشق(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22جنوری۔2013ء)جنگی جرائم کے تین سابق ججوں کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے واضح شواہد ہیں کہ شام میں بغاوت کے آغاز سے جنگی قیدیوں پر منظم طریقے سے تشدد کیا گیا ہے اور ان میں سے 11 ہزار افراد پھانسی دی گئی ہے۔اس رپورٹ کے ایک مصنف نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس میں حکومت کے شامل ہونے کے شواہد ہیں۔

تاہم دمشق نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔جانچ کرنے والوں نے ہزاروں مردہ قیدیوں کی تصاویر دیکھیں اور ان کا جائزہ لیا۔ یہ تصویریں شام سے باہر ایک باغی کے ذریعے چوری سے لے جائی جا رہی تھی۔رپورٹ کے ایک مصنف پروفیسر سر جیفری نائس نے برطانوی نشریاتی ادارے کوبتایا کہ ’جس سطح پر مسلسل ہلاکتیں ہوئی ہیں اس سے شواہد ملتے ہیں کہ ان میں حکومت شامل ہے اور اس کے خلاف مجرمانہ مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

فورنسک تفتیش کار سٹوارٹ ہیملٹن نے بھی ان شواہد کی جانچ کی اور برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ جن تصاویر کو انھوں نے دیکھا ہے ’ان میں سے زیادہ تر کی موت واضح طور پر فاقہ کشی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ’بہت سے جسم کو باندھ دیا گیا تھا جبکہ بہت سے لوگوں کو مارا پیٹا گیا تھا اور بہت سے افراد کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔واضح رہے کہ یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب ایک دن بعد سوئٹزرلینڈ میں شام کے متعلق امن مذاکرت ہو رہے ہیں۔

ان مذاکرات کو تین سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے اب تک کی سب سے بڑی سفارتی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔اس جنگ میں ابھی تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک اور دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔یہ رپورٹ قطر کی ایما پر تیار کی گئی ہے جو شام کے باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔یہ رپورٹ اس باغی فوجی کے شواہد پر منبی ہے جس نے مبینہ طور پر 11 ہزار قیدیوں کی 55 ہزار تصویریں افشا کی تھیں۔

جانچ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اموات فاقہ کشی کے سبب ہوئی ہیں۔ان میں 2011 میں بغاوت کے آغاز سے لے کر گذشتہ سال سنہ 2013 جولائی تک کی تصویریں شامل ہیں۔ معائنہ کاروں کا کہنا ہے کہ تصویروں میں دکھائے جانے والے زیادہ تر جسم سوکھ چکے ہیں، بہت سے جسموں پر تشدد کے آثار ہیں جبکہ بہت سوں کا گلا گھونٹا گیا ہے۔

متعلقہ عنوان :