امریکا نے عراق میں مزاحمت کاروں کی سرگرمیوں کی فضائی نگرانی میں اضافہ کردیا،اگر برسرزمین صورت حال کے مطابق ضرورت پیش آتی ہے تو امریکا اہدافی اور مختصر فوجی کارروائی کے لیے تیار ہے،صد ر اوباما

ہفتہ 21 جون 2014 08:21

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21جون۔ 2014ء )امریکہ کے صدرباراک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ ضرورت پڑنے پر عراق میں شدت پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن اور مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے تیار ہے۔لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی فوج عراق میں لڑائی میں شرکت کے لیے نہیں جائے گی۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق صدر اوباما نے وائٹ ہاوٴس میں اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کے سینئر ارکان کے ساتھ عراق کی صورت کے حوالے سے مشاورت کی ہے۔

بعدازاں بعدصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر برسرزمین صورت حال کے مطابق ضرورت پیش آتی ہے تو امریکا اہدافی اور مختصر فوجی کارروائی کے لیے تیار ہے۔صدر براک اوباما نے کہا کہ عراقی حکومت کی مدد کے لیے 300 عسکری مشیر بھیجے جائیں گے تاہم انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ عراق کے مسئلے کا کوئی ’عسکری حل‘ نہیں ہے اور اس کے لیے سیاسی حل کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے مزید کہا کہ ’امریکہ عراق میں ایک مسلک کے حق میں اور دوسرے کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کرے گا۔صدر براک اوباما نے کہا کہ یہ امریکہ کا کام نہیں کہ وہ عراق کے رہنماوٴوں کو منتخب کرے لیکن ان پر زور دیا کہ وہ ’سب کو ساتھ لے کر چلنے‘ کے ایجنڈے پر چلیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا اگر عراق میں دولت اسلامی عراق وشام (داعش) کو روکنے کے لیے مداخلت کرتا ہے تو یہ ایک اچھی سرمایہ کاری ہوگی کیونکہ داعش وہاں اپنے اڈے بنا لیتی ہے تو ان سے بآلاخر خطرہ مغرب ہی کو ہوگا۔

تاہم انھوں نے واضح کیا کہ امریکی فوجی براہ راست لڑائی کے لیے عراق میں دوبارہ نہیں جائیں گے۔البتہ ان کا کہنا تھا کہ امریکا عراق کے ساتھ مل کر بغداد اور شمالی عراق میں مشترکہ آپریشن مراکز بنائے گا۔انھوں نے انکشاف کیا کہ امریکا نے بغداد کو درپیش خطرے کو سمجھنے کے لیے عراق میں سراغرسانی اور نگرانی کی سرگرمیوں میں پہلے ہی اضافہ کردیا ہے۔

قبل ازیں امریکی حکام نے یہ اطلاع دی تھی کہ فضائیہ نے ایف 18 جنگی طیاروں کے ذریعے عراق میں مزاحمت کاروں کی نگرانی شروع کردی ہے۔یہ جنگی طیارے خلیج میں امریکی بحری بیڑے جارج ایچ ڈبلیو بش پر موجود ہیں اوروہیں سے پروازیں کررہے ہیں۔

صدر اوباما سے جب عراقی وزیراعظم نوری المالکی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ عراق کے لیڈروں سے متعلق فیصلہ کرنا امریکا کا کام نہیں ہے۔

البتہ ان کا کہنا تھا کہ اب مالکی کے سامنے ایک مشمولہ قیادت کا امتحان ہے۔انھوں نے کہا:''شیعہ ،سنی ،کردوں سمیت تمام عراقیوں کو اس بات کا اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ تشدد نہیں بلکہ سیاسی عمل ہی کے ذریعے اپنے مفادات اور امنگوں کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ ایک مشمولہ ایجنڈے کے ذریعے ہی لیڈر عراقی عوام کو اکٹھے رکھ سکتے ہیں اور اس بحران سے نکل سکتے ہیں۔

انھوں نے خبردار کیا کہ وہ ایسے سیاسی آپریشنز کی اجازت نہیں دیں گے جس سے عراق میں ایک فرقے کی دوسرے پر بالادستی قائم ہوجائے۔انھوں نے امریکی وزیرخارجہ جان کیری کو اسی اختتام ہفتہ پر یورپ کے دورے پر بھیجنے کا اعلان کیا ہے جو وہاں امریکی اتحادیوں کے ساتھ عراق میں جاری بحران کے حوالے سے آیندہ اقدامات کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔