ایران کی مجلس شوریٰ نے ضبط ولادت کے مرتکب مرد وخواتین کو دو سے پانچ سال قید کی سزا کے متنازعہ قانون کی منظوری دیدی

اتوار 29 جون 2014 08:42

تہران(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29جون۔2014ء)ایران کی مجلس شوریٰ نے ایک متنازعہ مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت ضبط ولادت کے مرتکب مرد وخواتین کو دو سے پانچ سال قید کی سزا دی جا سکے گی،یہ قانون ایک ایسے وقت میں منظور کیا گیا ہے جب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے آبادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے اور موجودہ آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کے خصوصی احکامات بھی متعدد مرتبہ سامنے آچکے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ضبط ولادت کیخلاف مسودہ قانون کی منظوری گذشتہ منگل کے مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کے اجلاس میں دی گئی۔ بل کے حق میں 107 اور مخالفت میں 72 ووٹ ڈالے گئے جبکہ آٹھ ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔اس قانون کے تحت اسقاط حمل کو قابل سزا جرم قرار دیتے ہوئے شوہر، بیوی یا دونوں کو دو سے پانچ سال کے لیے جیل میں ڈالا جائے گا۔

(جاری ہے)

سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے اس مسودہ قانون پر سخت تنقید بھی سامنے آئی ہے۔ متنازعہ قانون کی مخالفت میں پیش پیش مراغہ شہرسے رکن پارلیمنٹ مہدی دواتغری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "اس قانون کی منظوری کا ضبط ولادت کے کلچر پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا تاہم خواتین نس بندی کے غیر قانونی طریقے اختیار کرنے اور پرائیویٹ کلینکس پر جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

قانون کے حمایتی رکن پارلیمنٹ علی مطھری کا کہنا ہے کہ یہ قانون بانی انقلاب آیت اللہ علی خمینی کے اس فتوے کی روشنی میں منظور کیا گیا ہے جس میں اسقاط حمل کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ایران میں جہاں آبادی میں اضافے کے لیے حکومت سر توڑ کوششیں کر رہی ہے وہیں ملک میں سنیوں کی تعداد اضافے پر تشویش کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔آبادی میں اضافے اور ضبطِ ولادت پر پابندی سے متعلق موجودہ ایرانی قوانین کے پس پردہ اصل کہانی اہل سنت مسلک کے حامیوں کی تعداد میں تیزی سے ہونے والا اضافہ ہے۔

مذکورہ بالا قانون دراصل اہل تشیع کے لیے ہے، اہل سنت کی جانب سے اس کی پابندی لازمی نہیں ہے۔ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے کے دوران سنی اکثریتی صوبوں بلوچستان، کردستان اور جلستان میں شرح پیدائش میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس کے بعد سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای کوشیعہ آبادی کو دوگنا کرنے کا حکم صادر کرنا پڑا۔

متعلقہ عنوان :