لیبیا‘ 3 کار بم دھماکوں اور جھڑپوں میں 36 فوجی ہلاک ، 70 سے زائدزخمی، بن غازی ایئرپورٹ کے گردو نواح میں فوج اور شدت پسندوں کے درمیان جھڑپیں جاری

ہفتہ 4 اکتوبر 2014 09:46

طرابلس(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4اکتوبر۔2014ء)لیبیا کے دارالحکومت بن غازی میں دھماکے اور فائرنگ سے 36 فوجی ہلاک اور 70 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق لیبیا کے بندر گاہی شہر بن غازی کے ہوائی اڈے کے قریب واقع فوجی چیک پوسٹ پر کیے گئے حملے میں 36 فوجی ہلاک اور ستر زخمی ہو گئے ۔ اِسی شہر میں خصوصی فوجی دستے، اْن فرجی بریگیڈز کے حلیف ہیں جو سابق جنرل خلیفہ حفتر کی قیادت میں اسلام پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیاں کچھ عرصہ قبل تک زور شور سے جاری رکھے ہوئے تھے لیکن اب اْن کی قوت ماند پڑ چکی ہے۔

شہر میں اسلام پسندوں کو تقریباً غلبہ حاصل ہے اور صرف ایک ہوائی اڈہ بچا ہوا ہے جہاں فوجی اپنا ٹھکانہ بنائے ہوئے ہے۔ خلیفہ حفتر کے مسلح فوجیوں کو انصار الشریعہ کے جنگجْووٴں کی شدت سامنا ہے۔

(جاری ہے)

اسی انتہا پسند گروپ کے سن 2012 میں کیے گئے مبینہ حملے میں امریکی سفیر کی ہلاکت ہوئی تھی۔بن غازی میں لیبیا کی اسپیشل فورسز کے کمانڈر وانس بْخمادا نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ دو کاریں بارود سے لدی ہوئی تھیں اور حملہ آوروں نے انہیں شہر کے سویلین اور فوجی ہوائی اڈے کے قریب واقع چیک پوسٹ سے ٹکرا دیا۔

بْخمادا کے مطابق کاروں کے ٹکرانے کے بعد بہت زور کا دھماکا ہوا تھا۔ اسپیشل فورسز کے کمانڈر نے ابتدائمیں ہلاکتوں کی تعداد تین بیان کی تھی لیکن مقامی ہسپتال کے طبی عملے نے بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد 36بتائی ہے۔ اِسی شہر کے مشرقی علاقے قبا کی فوجی چیک پوسٹ پر بھی حملہ کیا گیا ہے۔ مشتبہ اسلام پسندوں نے فائرنگ کر کے چار فوجیوں کو بھی ہلاک کر دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق لیبیا میں جنگی صورتِ حال اور سیاسی غلبے کا حصول حقیقت میں معدنی دولت پر قبضے کی مسلح جدوجہد ہے۔ طرابلس میں اسلام پسندوں کو مصراتہ کے طاقتور قبائل کی حمایت بھی حاصل ہے۔عرب دنیا کے کئی دانشور خیال کرتے ہیں کہ لیبیا ایک ناکام ریاست بن چکی ہے جب کہ مغربی اقوام اِس خطرے کا اظہار کرتی ہیں کہ ابتری کا شکار یہ ملک جلد ہی ناکام ریاست کا روپ دھار لے گا۔

بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت متحارب قبائل کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ متحارب قبائل نے اپنے زور پر دارالحکومت سے اِس حکومت کی بساط لپیٹ دی ہے اور وہ اب تبروک میں ڈھیرے جمائے ہوئے ہے۔ طرابلس میں اسلام پسندوں نے متوازی پارلیمنٹ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا وزیراعظم بھی بنا رکھا ہے۔

متعلقہ عنوان :