داعش کا دو تیونسی سیاست دانوں کو قتل کرنے کا دعویٰ

جمعہ 19 دسمبر 2014 06:27

تیونسیا(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19دسمبر۔2014ء)عراق اور شام میں برسر پیکار سخت گیر جنگجو گروپ داعش سے تعلق رکھنے والے جنگجووٴں نے 2013ء میں تیونس میں دو سیکولر سیاست دانوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔تیونس کو مطلوب ابو مقاتل نامی ایک جنگجو نے جمعرات کو انٹرنیٹ پر اپنی ایک ویڈیو جاری کی ہے اور اس میں کہا ہے کہ ''انھوں نے ہی شکری بالعید اور محمد براہیمی کو قتل کیا تھا''۔

اس ویڈیو میں بعض دوسرے جنگجو بھی نظر آرہے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کہاں فلمائی گئی تھی۔البتہ ابومقاتل نے کہا ہے کہ وہ اس وقت داعش کے کنٹرول والے علاقے میں ہیں۔داعش نے عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کررکھی ہے۔اس جنگجو کا حقیقی نام ابوبکر الحکیم ہے۔

(جاری ہے)

اس نے کہا ہے کہ ''ہم (تیونس) واپس آنے ہی والے ہیں اور آپ میں سے متعدد کو ہلاک کریں گے۔

جب تک تیونس اسلامی قانون کا نفاذ نہیں کرتا،اس وقت تک تم بھی امن چین سے زندگی نہیں گزار سکتے''۔واضح رہے کہ تیونس کے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سرکردہ سیاست دان شکری بالعید کو گذشتہ سال 6 فروری اور محمد براہیمی کو 25 جولائی کو قتل کردیا گیا تھا۔تیونسی حکام نے انتہا پسند گروپ انصارالشریعہ کو ان دونوں کے قتل کا ذمے دار قرار دیا تھا لیکن اس گروپ نے ان دونوں کے قتل کی ذمے داری قبول کرنے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا۔

شکری بالعید اور محمد براہیمی کے قتل کے بعد تیونس میں پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور حزب اختلاف کے احتجاجی مظاہروں کے بعد ملک سیاسی بحران کا شکار ہوگیا تھا،اس کے نتیجے میں اسلامی جماعت النہضہ کے وزیراعظم حمادی جبالی کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔اس کے بعد اس سال جنوری میں مہدی جمعہ کی سربراہی میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل غیر جانبدار عبوری حکومت تشکیل دی گئی تھی اور اسی حکومت نے ملک میں اکتوبر میں پارلیمانی انتخابات کرائے ہیں۔

حکام کے ایک اندازے کے مطابق قریباً تین ہزار تیونسی عراق اور شام میں جاری جنگوں میں شرکت کے لیے گئے ہیں۔وہ داعش اور دوسرے انتہا پسند گروپوں کے ساتھ مل کر مخالفین کے خلاف لڑرہے ہیں۔سکیورٹی حکام نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ان جنگجووٴں میں سے بعض وطن لوٹنے کی صورت میں حملے کرسکتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :