عرا قی فوج بے بس ،حکومت نے رمادی کا قبضہ چھڑا نے کے لئے رضاکاروں سے مد د ما نگ لی ،عراقی عوام داعش کے خلاف بطور قوم متحد رہے ، رمادی کا قبضہ واپس لینیکے لئے لڑائی میں رضاکارانہ طور پر شرکت کریں، ملک کا چپہ چپہ دعش سے آ ذاد کرا ئیں گے ،عرا قی کا بینہ،رمادی کی بازیابی کا آپریشن، ٹینک اور آرٹلری تعینات کر دی گئی ، دعش نے بھی دفاعی حکمت عملیکے تحت شہر میں بارودی سرنگیں بچھانا شروع کر دیں

جمعرات 21 مئی 2015 05:39

بغداد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21 مئی۔2015ء)عر اقی حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ دولتِ اسلامیہ سے صوبہ انبار کے دارالحکومت رمادی کا قبضہ واپس لینے کی لڑائی میں رضاکارانہ طور پر شرکت کریں۔ غیر ملکی خبر رسا ں ادارے کے مطا بق دولتِ اسلامیہ کے جنگجووٴں نے اتوار کو رمادی پر قبضہ کیا تھا اور عراقی حکومت نے شہر کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا کی خدمات حاصل کی ہیں جو اس وقت شہر کے مشرق میں موجود ہے۔

کابینہ کے بیان میں عراقی عوام سے داعش کے خلاف بطور قوم اکٹھے رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ انبار اور نینوا میں موجود عوام کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔عراقی کابینہ نے اس عزم کو بھی دہرایا کہ عراقی حکومت دولتِ اسلامیہ کے زیرِ قبضہ علاقے کا چپہ چپہ آزاد کروائے گی۔

(جاری ہے)

کابینہ نے عراقی فوج، عوامی رضاکاروں،اور عراقی فوج کی جنرل کمان کے ماتحت قبائلی جنگجووٴں کے ذریعیانبار صوبے کو دولتِ اسلامیہ سے آزاد کروانے کے لیے ملک کے کمانڈر ان چیف کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔

عراق کی کابینہ کے بیان میں ان سکواڈز میں رضاکاروں کی بھرتی کے فیصلے کی توثیق کی گئی ہے جہاں فوج کی تعداد کم ہے۔ فوجی دستوں کی کمی کا سامنا کرنے والے علاقوں میں مغربی انبار بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ لڑائی سے فرار ہونے والوں کے کنٹریکٹ ختم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔کابینہ نے انبار کے زیرِ قبضہ علاقوں کی دولتِ السلامیہ سے رہائی کے بعد مقامی پولیس کی تربیت اور تیاری کی ضرورت پر زور دیا۔

اس کے علاوہ عالمی برادری اور ہمسایہ ممالک سے بھی کہا ہے کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں حکومتِ عراق کی مدد کرے۔ اس ضمن میں اسلحے کی فراہمی کے علاوہ جنگ کے بعد علاقے کی تعمیرنو کے لیے فنڈز کی فراہمی کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ادھر امریکہ کی قومی سلامتی کونسل نے کہا ہے کہ وہ غور کر رہی ہے کہ انبار میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے والی زمینی فوج کی ’مدد کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔

کونسل کے ترجمان الیسٹر باسکی نے فرا نسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ ممکنہ اقدامات میں ’مقامی قبائلیوں کی جلد از جلد تربیت اور انھیں مسلح کرنا بھی شامل ہے تاکہ رمادی کا قبضہ واپس لینے کے عراقی آپریشن کی مدد کی جا سکے۔‘رمادی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں شہر پر اپنا قبضہ مضبوط کر رہے ہیں اور انھوں نے نہ صرف دفاعی مورچے قائم کیے ہیں بلکہ شہر میں بارودی سرنگیں بھی بچھا دی ہیں۔

مقامی شہریوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جنگجو حکومت کے حامیوں اور ہمدردوں کو ڈھونڈنے کے لیے گھر گھر تلاشی لے رہے ہیں اور ان افراد کو ہلاک کر کے ان کی لاشیں دریائے فرات میں پھینک دی جاتی ہیں۔اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یہ ایک انسانی بحران ہے۔ حالیہ دنوں میں 25 ہزار افراد شہر چھوڑ چکے ہیں اور ان میں سے اکثر کھلے آسمان تلے سو رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق شیعہ ملیشیا کے تقریباً 3,000 لوگ رمادی شہر سے 20 کلومیٹر دور الحبانیہ ملٹری کیمپ میں رمادی شہر پر سے دولتِ اسلامیہ کا قبضہ ختم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ادھر عراقی سیکورٹی فورسز نے رمادی کے ارد گرد آرٹلری اور ٹینک تعینات کر دیے ہیں جبکہ اس شہر پر قابض اسلامک اسٹیٹ کے جنگجووٴں نے دفاعی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے شہر میں بارودی سرنگیں بچھانا شروع کر دی ہیں۔

بر رساں روئٹرز نے بغداد سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کو رمادی میں پسپا کرنے کے لیے عسکری حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بروز منگل ملکی فوج نے اس شہر کا محاصرہ کرتے ہوئے ارد گرد ٹینک اور آرٹلری تعینات کر دی ہے۔ اسی اثناء ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایران نواز شیعہ ملیشیا کے جنگجووٴں نے رمادی کے جنوبی علاقوں میں جمع ہونا شروع کر دیا ہے۔

دوسری طرف عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ اتوار کے دن رمادی پر قبضہ کرنے والے شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کا مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے جبکہ ساتھ ہی وہ اہم علاقوں اور سڑکوں پر بارودی سرنگیں بھی بچھا رہے ہیں۔ مقامی رہائشیوں کے مطابق جنگجوگھروں میں جا کر ایسے افراد کو تلاش کر رہے ہیں، جو سیکورٹی فورسز کے لیے کام کرتے ہیں یا حکومت کے حامی ہیں۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یہ شدت پسند متعدد افراد کو ہلاک کر کے دریائے فرات میں بھی بھینک چکے ہیں۔اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے جہادیوں نے کہا ہے کہ وہ اسلامی عدالتیں قائم کرتے ہوئے لوگوں کو انصاف مہیا کریں گے۔ انہوں نے رمادی کی جیل میں مقید سو ایسے قیدیوں کو بھی رہا کر دیا ہے، جنہیں دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ کچھ مبصرین کے مطابق ان قیدیوں کو آزاد کرنے کے باعث یہ جہادی مقامی آبادی میں ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :