توہین عدالت کیس ، پولیس افسران کے وکیل سندھ ہائی کورٹ میں عدالت سے گڑ گڑا کر معافیاں مانگتے رہے، کسی جج کی توہین کی جاتی تو وہ معاف کر دیتے لیکن عدلیہ کی توہین کی گئی ؛ جسٹس سجاد علی شاہ کے ریمارکس

منگل 2 جون 2015 08:56

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2 جون۔2015ء)سندھ ہائی کورٹ میں توہین عدالت اور صحافیوں پر تشدد کے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ جج کی توہین معاف کی جاسکتی ہے،ادارے کی نہیں،عدالت سب کی ہے یہ آپ کی بھی توہین ہے،ہم نے 19 مئی کے گھیراوٴ کا نوٹس لیا ، 23 مئی کو عدلیہ پر حملہ کر کے جواب دیا گیا،چیف سیکرٹری پرواضح کردیاکہ وزیراعلی نے جوایکشن لیاوہ محض ایک آئی واش ہے،اسپیشل برانچ کے افسرنے کہا اسکا پولیس پرکوئی اختیار نہیں،پولیس کا سیکیورٹی پلان آپریشن 007 کا پلان لگتا ہے،ان پر فرد جرم عائد کریں گے ، کٹہرے میں بلائیں گے ، انٹیلی جنس افسران تو سادہ لباس میں ہوتے ہیں لیکن آپریشن کے افسران کا سادہ لباس میں ہونا سمجھ سے بالا تر ہے ،عدالت نے سماعت 4جون تک ملتوی کردی ہے ۔

(جاری ہے)

پیر کو توہین عدالت اور صحافیوں پر تشدد کے متعلق درخواست کی سماعت جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی ۔دوران سماعت رپورٹ چیف سیکریٹری سندھ نے جمع کروائی، چیف سیکریٹری سندھ صدیق میمن نے اپنی رپورٹ میں عدالت میں کو بتایاہے کہ حکومت نے عدالتی گھیراوٴ اور صحافیوں پر تشدد کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ انسپکیشن ٹیم کے سربراہ سبحان میمن کی سربراہی میں واقعہ کے متعلق تفتیش کے لیے کمیٹی بنادی گئی ہیں، ایس ایس پی ساوٴتھ چوہدری اسد، ایس ایس یو کے کمانڈر میجر ریٹائرڈ سلیم کو معطل کردیا گیا ہے، ایس پی صدر ذیشان بٹ اور ایس پی لیاقت آباد طاہر نورانی کو بھی عہدوں سے ہٹادیا گیا ہے۔

جس پر عدالت نے کہا کہ حکومتی کمیٹی توہین عدالت پر فیصلہ نہیں کرسکتی ہے ، جج بھی توہین عدالت کرے تو اسے بھی فارغ کردیا جاتا ہے ۔ اس موقع پر پولیس افسران کے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت سے گڑا گڑا کر معافیاں مانگتے رہے اور کہا وہ سینئر ترین وکیل ہیں۔ ہاتھ جوڑ کر معافی کی درخواست کرتے ہیں ، پولیس افسران سے غلطی ہوئی ہے۔ آپ بڑے بڑے ملزموں کو چھوڑ دیتے ہیں ، پولیس افسران کی غلطی بھی معاف کر دیں۔

انہوں نے کہا ہم تحریری طور پر معافی مانگتے ہیں اور حلفیہ لکھ کر دیں گے ، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا ہم میڈیا سے بھی تحریری طور پر معافی مانگ لیں گے۔ میڈیا اور ہائی کورٹ کے علاوہ ذوالفقار مرزا سے بھی معافی مانگنے کو تیار ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہم آپ کی معافی پر غور کریں گے اگر کسی جج کی توہین کی جاتی تو ہم معاف کر دیتے لیکن ادارے کی توہین کی گئی ہے۔

ان پر فرد جرم عائد کریں گے ، کٹہرے میں بلائیں گے ، انٹیلی جنس افسران تو سادہ لباس میں ہوتے ہیں لیکن آپریشن کے افسران کا سادہ لباس میں ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔سماعت کے دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ یہ سب گریڈ 21 کے افسر ہیں ، کیا کریں گے یہ آئی واش ہے حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ ہم نے 19 مئی کے گھیراوٴ کا نوٹس لیا ، 23 مئی کو عدلیہ پر حملہ کر کے جواب دیا گیا۔

عدلیہ پر حملے کی معافی قبول نہیں کریں گے۔ اس موقع پر عدالت میں چیف سیکرٹری صدیق میمن اور آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی موجود تھے۔ عدالت نے چیف سیکریٹری کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ کی تشکیل کردہ کمیٹی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا ، دوران سماعت میڈیا نمائندوں کے وکیل بیرسٹرصلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ فیصل بشیرمیمن نے حلفیہ کہاکہ وہ موجودتھے اورآئی جی کورپورٹ کررہے تھے،آئی جی کو یہ بھی بتانا چاہیے تھاکہ انھوں نے ایکشن کس کے کہنے پر لیا ہے ،آئی جی سندھ کی ذمے داری تھی کہ وہ واقعہ کوغیرقانونی قراردیتے،جوتوہین عدالت کرتے ہیں انھیں سزاملنی چاہیے تاکہ آیندہ ایسانہ ہو،12مئی 2007 کو بھی آئی جی سندھ نے معافی مانگی تھی،اگر سزا نہ ملی تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔

وکیل آئی جی سندھ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم مانتے ہیں پولیس سے غلطی ہوئی ہے،غیرمشروط معافی اوراپنے آپ کوعدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں،یہ سب عدالت اور میڈیا کو لکھ کر دینگے کہ آیندہ ایسا نہیں ہوگا،معافی مانگنے پرآپ بڑے بڑے مجرموں کوچھوڑدیتے ہیں انکو بھی چھوڑدیں،پولیس ذوالفقار مرزا کو بھی یہی لکھ کر دینے کو تیار ہے۔دوران سماعت آئی جی سندھ نے 23مئی کا سندھ ہائیکورٹ کا سیکیورٹی پلان پیش کیا۔

جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کیا اس پلان کی اجازت عدالت سے لی تھی یہ تو آپریشن 007 کا پلان لگتا ہے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ یہ دیکھ کرحیرانگی ہوئی کہ کس طرح میڈیا کے لوگوں کو مارا گیا،میڈیا والے تو باہرتھے،ذوالفقار مرزا آیا تو وہ اندر آگئے،رجسٹرار نے اسپیشل برانچ کے افسر کو پولیس ہٹانے کا کہا تواس نے کہا کہ پولیس میرے اختیار میں نہیں ہے ۔بعدازاں عدالت نے سماعت 4جون تک ملتوی کردی ہے ۔

متعلقہ عنوان :