عبادت گاہوں پر حملوں میں ملوث عناصر میں ایران سرفہرست،تہران سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی مقامات کو نشانہ بناتا رہا ہے، رپورٹ

اتوار 28 جون 2015 07:52

دبئی( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28 جون۔2015ء) ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سیعراق، ایران اور کئی دوسرے ملکوں میں مساجد پر ہونے والے حملوں میں ملوث عناصر میں ایران سر فہرست رہا ہے۔ ایران اپنے مذموم سیاسی مقاصد کی تکمیل اور دوسرے ملکوں میں فرقہ واریت کے فروغ کے لیے عباد گاہوں کو دھماکوں کا نشانہ بناتا رہا ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ نے گذشتہ روز کویت میں جامع مسجد پر ہونے والے دھماکے کی تفصیلات جاری کی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق جس مسجد کو دہشت گردوں نے دھماکے کا نشانہ بنایا وہ کویت میں الصوابرہ کے مقام پر واقع ہے اور اس کا پرانا نام "مسجد الحاکہ" بتایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد کسی دور میں کویتی شیعہ رہ نما عبداللہ الحائریر الاحقاقی کے زیرانتظام تھی تاہم کچھ عرصے سے اس کا کنٹرول کویتی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔

(جاری ہے)

اس لیے اس کا پرانا نام تبدیل کر کے مسجد امام جعفر الصادق رکھ دیا گیا۔

مسجد کا مجموعی رقبہ 1800 مکعب میٹر تھا اور اسے جدید فن تعمیر کی طرز پر بنایا گیا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے ایک عشرے کے دوران عرب ممالک اور کئی دوسرے مسلمان اور غیر مسلم ممالک میں مساجد اور مقدس مقامات میں ہونے والے بم دھماکوں کی ذمہ داری القاعدہ اور دولت اسلامیہ "داعش" جیسی شدت پسند تنظیموں نے قبول کی مگر مساجد اور مقدس مقامات کو نشانہ بنانے کی یہ مکروہ روایت پہلے ایران نے ڈالی۔

ایران اپنے ہاں، عراق اور سعودی عرب میں فرقہ وارانہ فسادات کے فروغ کے لیے مقدس مذہبی مقامات کو نشانہ بناتا رہا ہے۔ایرانی امور کے تجزیہ نگار عبدالرحمان العفراوی کا کہنا ہے کہ "ایران کی جانب سے مقدس مقامات میں دھماکوں کی روایت کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔ مقدس مقامات پر حملوں کی پہلی کارروائی ایران کی جانب سے کی گئی تھی۔ ایران نے 20 جنوری 1994ء کو مشہد شہر میں امام علی بن موسیٰ الرضا کے مزار پر دھماکہ کیا جس میں 26 زائرین ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ یہ دھماکہ مرشد اعلیٰ کے زیر کمانڈ ایرانی انٹیلی جنس کی کارستانی تھی۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ابھی داعش کا نام و نشان تک نہ تھا۔

متعلقہ عنوان :